رسائی کے لنکس

’ ناٹ مائی کنگ‘ برطانوی پولیس کو بادشاہت مخالفین کے ساتھ برتاؤ پرتنقید کا سامنا


وکیل اور موسمیاتی تغیر پر سرگرم کارکن پال پالزلینڈ نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ انہیں بھی پولیس نے خبردار کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر ایک خالی کاغذ اٹھا کر اپنی گرفتاری کا خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔
وکیل اور موسمیاتی تغیر پر سرگرم کارکن پال پالزلینڈ نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ انہیں بھی پولیس نے خبردار کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر ایک خالی کاغذ اٹھا کر اپنی گرفتاری کا خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔

ویب ڈیسک۔ برطانوی پولیس کو ایسے مظاہرین کے ساتھ اپنے سلوک پر شہری حقوق کے گروپوں کی طرف سے تنقید کا سامنا ہے جو شاہ چارلس سوئم کے تخت نشین ہونے پر احتجاج کر رہے تھے۔

سوشل میڈیا پر پیر کے روز وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ احتجاج میں شامل ایک خاتون نے ایک بڑا بینر اٹھا رکھا ہے جس پر لکھا ہے: ’ ناٹ مائی کنگ‘ ، یعنی آپ میرے بادشاہ نہیں ہیں۔

اس کے بعد لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر تعینات چار پولیس افسروں سے ان کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔

احتجاج کرنے والی اس خاتون کو پولیس آفیسر احتجاج کی جگہ سے دور لے جاتے ہیں اور اطلاعات کے مطابق خاتون کو پارلیمنٹ کے دروازوں سے دور کسی جگہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔

وکیل اور موسمیاتی تغیرکے سرگرم کارکن پال پالزلینڈ نے اپنے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ انہیں بھی پولیس نے خبردار کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے باہر ایک خالی کاغذ اٹھا کر اپنی گرفتاری کا خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔

’’ اس (پولیس آفیسر ) نے تصدیق کی کہ اگر میں نے اس کاغذ پر ’ ناٹ مائی کنگ‘ لکھا تو وہ مجھے ’ پبلک آرڈر‘ کے تحت گرفتار کر لے گا کیونکہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو سکتی ہے۔‘‘

پال نے یہ ٹویٹ ایک وڈیو کے ساتھ شئیر کی ہے جس میں وہ ایک آفیسر کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں۔

برطانیہ کے عوام ملکہ الزبتھ دؤم کے 96 سال کی عمر میں انتقال کا سوگ منا رہے ہیں اور شاہی خاندان کو عوام کی ہمدردی حاصل ہے۔

لیکن اس موقع پر مخالف آوازوں کے لیے موجود گنجائش پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور شہری آزادیوں کے گروپ خبردار کر رہے ہیں کہ پولیس بادشاہت کی مخالف ایک چھوٹی سی اقلیت کے حقوق کا احترام کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

بگ برادر واچ نے ایک بیان میں کہا ’’ اگر لوگوں کو محض اس لیے گرفتار کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے ایک کتبہ اٹھا رکھا ہے اور وہ احتجاج کر رہے ہیں تو یہ جمہوریت کی توہین ہے اور غالب امکان ہے کہ یہ اقدام غیر قانونی بھی ہو‘‘۔

’’ پولیس آفیسرز کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے احتجاج کے حق کا بھی اسی طرح تحفظ کریں جیسے وہ لوگوں کےدکھ کے اظہار اور خراج عقیدت پیش کرنے کے حق کا احترام کر رہے ہیں۔‘‘

ایک اور واقعہ میں جنوبی انگلینڈ کے آکسفورڈ کے علاقے میں اتوار کو ایک 45 سالہ شخص کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب انہوں نے چارلس کو بادشاہت کی منتقلی کے اعلان کے دوران نعرہ بلند کیا کہ ’ ان کو کس نے منتخب کیا‘۔

لبرٹی کمپین گروپ سے وابستہ جوڈی بیک نے کہا ہے کہ احتجاج کا حق ایک فعال جمہوریت کا اہم اور صحت مند جزو ہے۔

’’ پولیس کو آزادی اظہار اور آزادی تقریر کے خلاف زور زبردستی اور سزا دینے کے انداز میں عمل کرتے دیکھنا بہت پریشان کن ہے۔

لندن کی میٹروپولیٹن پولیس فورس پیر کو بظاہر یہ تسلیم کرتی نظر آئی کہ کچھ اہل کاروں کے رویے کے خلاف ادارہ ’ زیروٹالرینس‘ یعنی مکمل عدم برداشت کی پالیسی رکھتا ہے۔

ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر سٹورٹ کنڈی نے کہا کہ بلاشبہ عوام احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔

’’ ہم اس غیر معمولی آپریشن میں مصروف، ڈیوٹی پر موجود تمام آفیسرز پر یہ بات واضح کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے‘‘۔

برطانیہ میں بادشاہت مخالف گروپ کی تعداد بہت کم ہے۔ مئی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق جن افراد سے ان کی رائے لی گئی ان میں سے 13 فیصد بادشاہت کو برطانیہ کے لیے اچھا نہیں سمجھتے۔ اس سروے کا اہتمام سروے ’ یو گو‘ YouGov نے کیا تھا۔

برطانیہ کے 54 فیصد لوگ بادشاہت کو ملک کے لیے اچھا خیال کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG