رسائی کے لنکس

پاکستان: قومی احتساب بیورو چینی باشندوں اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کیوں کررہا ہے؟


NAB detains son in law of former prime minister Nawaz Sharif
NAB detains son in law of former prime minister Nawaz Sharif

پاکستان میں وفاقی سطح پر احتساب کے لئے قائم ادارے قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام ان دنوں بعض ایسی چینی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کررہے ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انہوں نے بڑے پیمانے پر عوام سے دھوکہ دہی کی ہے۔ اگرچہ اس طرح کی دھوکہ دہی کی سرگرمیوں کی صحیح رقم ابھی تک حکام کو بھی معلوم نہیں ہوپائی ہے لیکن نیب حکام کا کہنا ہے کہ یہ کروڑوں روپے ہوسکتی ہے۔

یہ شکایت حکومت پاکستان ہی کے ایک اور ادارے سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان (ایس ای سی پی) کی جانب سے نیب حکام کو درج کرائی گئی جس کے تحت گولڈ ٹرانسمٹ نیٹ ورک ٹیکنالوجی اور گرین ایپل سُپر مارکیٹ لمیٹڈ نامی دو کمپنیاں عوام سے بڑے پیمانے پر غیر قانونی طور پر ڈپازٹ جمع کرنے میں مصروف ہیں اور پھر لوگوں کو منافع دینے کی فراڈ پر مبنی اسکیموں کو لانچ کیا جارہا ہے۔ اس مقصد کے لئے لوگوں کو بھاری مراعات اور بھاری بھرکم منافعوں کی بھی پیش کش کی جارہی ہے۔ ایس ای سی پی حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کی اسکیمز سے لوگ انتہائی محنت سے کمائی گئی جمع پونجیوں سے محروم ہوسکتے ہیں۔

نیب حکام کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ کمپنیاں اپنی تین مختلف ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں کو ایسے منافعوں کی پیش کش کرکے اپنے پاس رقوم رکھوانے کالالچ دے رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ان ویب سائٹس پر لوگوں کو کمپنیوں کے ساتھ پہلے رجسٹرڈ ہونے کا کہا جاتا ہے۔ رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد کسٹمرز کویہ کہا جاتا ہے کہ اپنے ڈپازٹ کمپنیز کے بینک اکاونٹس میں جمع کرائیں یا پھر کمپنیز کے دفاتر میں کیش کی صورت میں جمع کرائیں۔ ایک دفعہ کسٹمر کی جانب سے پیسے وصول ہونے کی صورت میں، انہیں مخصوص آئی ڈی نمبر جاری کیا جاتا ہے جس کی مدد سے کسٹمر، کمپنیوں کی ویب سائٹ پر لاگ اِن ہو کر اپنی پروفائل مینیج کرسکتا ہے۔


اس کے بعد یہ کمپنیاں روپے جمع کرانے والے کسٹمرز کو پوائنٹس دیتی ہیں۔ اور سرمایہ کاری میں کمی یا زیادتی کی صورت میں یہ پوائنٹس بڑھتے یا گھٹتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے ویب سائٹس ہی مین پلیٹ فارم ہوتے ہیں جہاں ماہانہ منافعوں کے بارے میں کسٹمرز کو مطلع کیا جاتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تین میں سے دو کمپنیوں کی یہ ویب سائٹس حکام کی جانب سے انکوائری کے آغاز پر ہی بند کردی گئی ہیں۔ جبکہ ایک ویب سائٹ اب بھی کام کررہی ہے۔

چینی شہریوں کی قائم کردہ ایسی ہی ایک کمپنی گولڈ ٹرانسمٹ میں سرمایہ کاری کرنے والی ایک شہری زنیب الیاس (اصل نام تبدیل کیا گیا ہے) نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمپنی میں سرمایہ کاری کے لئے انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک اشتہار دیکھا تھا، گھریلو حالات نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنی جمع پونجی میں سے کچھ رقم بہتر مستقبل کے لئے لگایئں ۔انہوں نے کمپنی کی ویب سائٹ پر رجسٹریشن کا عمل مکمل کرنے کے بعد 18 لاکھ روپے کی رقم متعلقہ بینک اکاونٹ میں منتقل کی۔ شروع میں انہیں یہ اعتماد تھا کہ رقم بینک اکاونٹ ہی میں منتقل کی جارہی ہے اور یہ کسی بھی سرمایہ کاری کے لئے قانونی طریقہ کار ہوسکتا ہے۔ کمپنی نے انہیں رقم پر ماہانہ 18 سے 20 فیصد خالص منافع کی پیشکش کی تھی۔ دو ماہ گزر جانے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ ان کے پوائنٹس کے تحت(جس کے ذریعے منافع کی تقسیم کی جاتی ہے) ک انہیں منافع ہر تین ماہ کے بعد منتقل کیا جائے گا۔ زینب نے مزید بتایا کہ ابھی تین ماہ کا وقت ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ اچانک کمپنی ویب سائٹ بند ہوگئی جس کے بعد انہوں نے کئی ہفتوں سے فون پر رابطہ کی بھی کوشش کی لیکن گولڈ ٹرانسمٹ کے پاکستانی نمائندوں نے انہیں بتایا کہ سرور لنک ڈاون ہونے کی وجہ سے ویب سائٹ کام نہیں کررہی ہے اور آئندہ چند روز میں یہ فعال ہوجائے گی۔ لیکن اس دوران ایک ماہ کا مزید وقت گزر جانے کے بعد بھی ویب سائٹ نہ چل سکی۔ زینب کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے دھوکے کا علم اس وقت ہوا جب اسی کمپنی میں 12 لاکھ کی سرمایہ کاری کرنے والے ان کے ایک عزیز سے نیب حکام کی جانب سے تفتیش میں تعاون کے لئے رابطہ کیا گیا۔

ایسی شکایت موصول ہونے کے بعد نیب حکام نے نیب آڑڈیننس 1999 کی دفعہ 12 کے تحت عدالت سے مجموعی طور پر سات چینی باشندوں سمیت نو اکاونٹس منجمند کرنے کی اجازت طلب کی ہے جن میں سے دو لاہور اور ایک حیدرآباد اور چھ کراچی میں مختلف بینکس کی برانچوں میں قائم ہیں۔ جبکہ ان تینوں کمپنیوں کے پتے لاہور کے واپڈا ٹاون اور پھر کراچی کے پوش علاقے ڈیفینس اور کلفٹن کے درج ہیں۔

ادھر نیب عدالت میں اس انکوائری کی سماعت کے موقع پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ چونکہ اس کیس میں چینی باشندوں کا بھی کردار سامنے آیا ہے، اس ضمن میں پاکستان کی وزارت خارجہ میں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) چائنہ کی جانب سے بھی رپورٹ کا انتظار ہے جس کے لئے تفتیشی حکام کو مزید وقت دے دیا گیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے اب تک پاکستانی یا چینی وزارت خارجہ کے حکام کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

کیا چینی سرمایہ کاری کرپشن کا سبب بن رہی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:05 0:00


پاکستان میں چینی شہریوں کی جانب سے عوام سے بڑے پیمانے پر فراڈ کا یہ کوئی پہلا کیس نہیں بلکہ اس سے قبل جنوری 2018 میں بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں میں اسکمنگ ڈیوائسز کے ذریعے ڈیٹا ہیک کرکے لوگوں کے اکاونٹس سے پیسے نکالنے کے الزام میں دو چینی باشندوں کو ایک سال قید اور 50 ہزار روپے جرمانہ کی سزا بھی سنائی تھی۔ مارچ 2020 میں ایک اور کیس میں ایسے ہی الزامات کے تحت ایک چینی باشندے کو چار سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ تین چینی باشندوں کو عدم ثبوت کی بناء پر بری کردیا گیا تھا۔ ان ملزمان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ اور پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت مقدمات قائم کئے گئے تھے۔


وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سابق جج اور نیب ریگولیشنز کے ماہر عامر رضا نقوی نے کہا کہ یہ آگاہی کی کمی ہے جو ایسے مسائل پیدا کرتی ہے اور عوام کو ایسی سرگرمیوں سے دھوکہ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کارروائیوںکو مضبوط قوانین اور تحقیقات کی کوششوں کو مستقبل میں ناکام یا مشکل بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک اور مسلئہ معاشرے میں پائی جانے والی لالچ ہے جس کے ہوتے ہوئے فراڈئیے بھوکے نہیں مرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو یہ شعور دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی ادارہ یا فرد انہیں غیر معمولی منافع کی آفر کررہا ہے تو وہ دھوکا بھی ہوسکتا ہے اور اس کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ رقم کس مد میں خرچ کی جارہی ہے اور جس کمپنی میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے وہ پاکستان میں رجسٹرڈ ہے بھی یا نہیں۔


ادھر پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن اتھارٹی (ایف آئی اے) کے سابق ڈائریکٹر لاء سید اسرار علی نے بتایا کہ بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی نیب قوانین کے دائرہ کار میں آتی ہے اور یہ قابل ضمانت جرم ہے لیکن جرم ثابت ہونے پر ملزم کو قانون کے تحت 14 سال تک قید اور جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے۔ نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے باعث انکوائری اور تفتیش کے مرحلے میں الزام کا شکار لوگوں کو گرفتار کرنے کا سلسلہ بند ہوچکا ہے۔ اس لئے کیس میں ملوث چینی شہریوں کو بھی تحقیقات کا حصہ بننے کے لئے باضابطہ نوٹس بھیج دیئے گئے ہیں۔ اس سے قبل کراچی میں سال 2018 اور سال 2020میں بھی کم از کم تین چینیوں کو اسکیمنگ سرگرمیوں کے ذریعے لوگوں کے بینک اکاونٹس سے رقوم ہتھیانے پر قید اور جرمانوں کی سزا سنائی جاچکی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG