پاکستان میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے نئے چئیرمین کے لیے وفاقی کابینہ نے آفتاب سلطان کے نام کی منظوری دے دی ہے۔
آفتاب سلطان پاکستان کے سول حساس ادارے انٹیلی بیورو کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔
وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ خان نے جمعرات کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس میں بتایا کہ وفاقی کابینہ نے آفتاب سلطان کی بطور چیئرمین نیب نامزدگی کی منظوری دے دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آفتاب سلطان کا ماضی کا ریکارڈ شان دار ہے۔ "ہمیں امید ہے کہ وہ بغیر کسی تعصب کے احتساب کی مہم کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوں گے"۔
آفتاب سلطان کی تعیناتی کا فیصلہ وزیرِ اعظم اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض میں اتفاق رائے کے بعد کیا گیا۔ وزیر ِاعظم نے لاہور میں اتحادی جماعتوں کے سربراہان سے بھی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آفتاب سلطان ایک دیانتدار اور اصول پرست افسر سمجھے جاتے ہیں جو اپنے ادارے کو بہترین کرنا جانتے ہیں لہذا ان کی نیب میں تعیناتی سے اس ادارے کی ساکھ بہتر ہو گی۔
آفتاب سلطان کا تعلق پنجاب کے علاقے فیصل آباد سے ہے اور 1977 میں پولیس سروس میں بطور اے ایس پی کام شروع کیا اور 2000 میں انہیں ڈی آئی جی کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
سن 2007 میں ایڈیشنل آئی جی اور گریڈ 22 میں ترقی کے بعد انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بنایا گیا۔
آفتاب سلطان آئی جی پنجاب اور نیشنل پولیس اکیڈمی کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے حارث اسٹیل ملز سمیت کئی ہائی پروفائل کیسز کی تحقیقات آفتاب سلطان سے کروائیں۔
نجم سیٹھی نے بطور نگران وزیر اعلٰی انہیں آئی جی پنجاب مقرر کیا جب کہ نواز حکومت نے آتے ہی انہیں ڈی جی آئی بی مقرر کردیا۔
آفتاب سلطان 2013 میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے بعد جون میں ڈی جی آئی بی بنے اور تین سالہ مدت پوری ہونے کے بعد انہیں دو مرتبہ توسیع ملی۔
آفتاب سلطان کی بطور چیئرمین نیب تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ یہ نوٹی فکیشن وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت کے بعد آفتاب سلطان کا تقررکیا گیا۔
آفتاب سلطان عہدہ سنبھالنے کے بعد تین سال کے لیے فرائض سرانجام دیں گے۔
صحافی اعزاز سید نے آفتاب سلطان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آفتاب سلطان وہ افسر ہیں جنہوں نے پاکستان کے سول انٹیلی جنس ادارے کو ملٹری انٹیلی جنس اداروں کے برابر لاکھڑا کیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ان کے دور میں سب سے زیادہ سامان اور آلات آئی بی کو فراہم کیے گئے جس کی وجہ سے آئی بی کی سرویلنس اور کارکردگی میں نمایاں بہتری آئی۔
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ 2014 میں ہونے والے دھرنے کے وقت وہ انٹیلی جنس بیورو کے ڈی جی کے طور پر کام کررہے تھے اور اس دھرنے کی ناکامی میں آفتاب سلطان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
مسلم لیگ(ن) کے ساتھ ان کی قربت اسی دور سے تھی لیکن اپنی پیشہ ورانہ کارکردگی کی وجہ سے کبھی بھی ان کی سیاسی وابستگی کے حوالے سے بات نہیں کی گئی۔
آفتاب سلطان کا نام سال 2018 میں نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے بھی دیا گیا لیکن انہوں نے معذرت کر لی تھی۔
نئے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا نام سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر ہونے والے ریفرنس میں بھی آیا تھا لیکن ان دونوں کے خلاف نیب ریفرنس دائر نہیں ہو سکا تھا۔
نیب نے اکتوبر 2020میں سارک کانفرنس کے نام پر گاڑیاں منگوا کر خلاف ضابطہ استعمال کرنے کے الزام پرریفرنس منظور کیا مگر یہ ریفرنس عدالت میں دائر نہ ہو سکا۔اس ریفرنس میں نواز شریف، سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری اور آفتاب سلطان نامزد تھے۔ نیب کے مطابق قومی خزانے کو 1952.74 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا تھا۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان آفتاب سلطان کو شریف خاندان کا وفادار قرار دیتے رہے ہیں، تاہم آفتاب سلطان عمران خان کے ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
آفتاب سلطان دیانت دار اور محنتی افسر ہیں: ڈاکٹر شعیب سڈل
سابق آئی جی سندھ اور مختلف عہدوں پر کام کرنے والے ڈاکٹر شعیب سڈل نے آفتاب سلطان کے حوالے سےوائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آفتاب سلطان پولیس فورس میں ایک ایمان دار اور بہت محنتی افسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انہوں نے جس بھی حیثیت اور جس بھی جگہ پر کام کیا وہاں اپنے جونئیرز اور دیگر افسران کو متاثر کیا۔
بطور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بھی انہوں نے بہت اعلیٰ کاکردگی کا مظاہرہ کیا اور ادارے کے افسران کی استعدادی صلاحیت میں اضافہ کے لیے بہت کام کیا، نئے سازوسامان کے ساتھ اس ادارے کے امیج کو بہتر بنانے میں ان کا اہم کردار ہے ۔
ڈاکٹر شعیب سڈل کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ وہ نیب کو بھی ایک بہتر ادارہ بنانے کے لیے کوشش کریں گے۔
آفتاب سلطان نئے چئیرمین کے طور پر جسٹس جاوید اقبال کی جگہ اپنا عہدہ سنبھالیں گے جو اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر دو جون کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد قائم مقام چئیرمین نیب ظاہر شاہ خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
جسٹس جاوید اقبال کی تعیناتی کے حوالے سے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور شاہد خاقان عباسی نے کہا تھا کہ ہم سے ایک بری غلطی ہوئی جس پر ہم معافی مانگتے ہیں۔
سابق چئیرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کے خلاف ایک خاتون کو ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تاہم جسٹس جاوید اقبال نے ان الزامات کی تردید کی۔ ان پر ماضی کی حکمران جماعت تحریک انصاف کے کہنے پر سیاسی مخالفین پر بے بنیاد کیسز بنانے کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے۔