پاکستان میں سابق وزرائے اعظم قومی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کےمبینہ کردار کے باعث اختیارات نہ ہونے کا گلہ کرتے رہے ہیں۔ اب سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں اختیارات نہ ہونے کا شکوہ کردیا ہے جس کے بعد یہ معاملہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِاعظم عمران خان نے جمعرات کو لاہور میں سینئر صحافیوں سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ساڑھے تین سالہ حکومت کے دوران پورے اختیارات نہیں ملے۔ذمہ داری ان کی تھی لیکن حکمرانی کسی اور کی تھی۔
عمران خان کے بقول ساڑھے تین سال میں اگر انہیں آدھے اختیارات بھی مل جاتےتو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کرلیتے۔ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اورآصف علی زرداری کے خلاف مقدمات تیار تھے لیکن ''ان پر'' دباؤ آجاتا تھا کہ یہ مقدمات دائر نہیں ہوں گے۔تاہم انہوں نے اپنے بیان میں کسی کا نام نہیں لیا ۔
یاد رہے کہ عمران خان جب وزیرِاعظم تھے تو اکثر یہ بیان دیا کرتے تھے کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں اور تمام ادارے ان کے ماتحت ہیں۔
سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ جب بھی کوئی شخص اقتدار میں ہوتا ہے تو اسےسب ٹھیک معلوم ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن اقتدار ختم ہوتے ہی اسے خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔
وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں سیاسی مبصرین سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ عمران خان کا اشارہ کس طرف تھا اور انہیں ایسا کیوں کہنا پڑا؟
'عمران خان خود کہا کرتے تھے کہ تمام ادارے ایک صفحے پر ہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب بھی کوئی شخص اقتدار میں ہوتا ہے تو وہ اس سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے۔ طاقت پاس ہوتی ہے اور وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔لہٰذا جو طاقت اور سپورٹ کے ستون ہوتے ہیں ان کے خلاف نہیں بولتے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ بھری ہوئی ہے۔ ایسی باتیں نہ صرف منتخب قائدین کرتے ہیں بلکہ کچھ ریاستی افسران اور حکمران بھی ایسی باتیں کرتے ہیں۔
اانہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کارگل کے زمانے کے جرنیلوں نے پہلے کچھ کہا اور بعد میں کچھ، جو لوگ جنرل(ر)پرویز مشرف کے ساتھ تھے جب وہ فائدہ اٹھا رہے تھے تو کچھ اور کہتے تھے اور ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ اور، یہ اسی طرح ہوتا آیا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ عمران خان یہ باتیں اس وقت کر رہے ہیں جب وہ اقتدار سے الگ ہوگئے ہیں۔لیکن ماضی میں عمران خان خان خود کہا کرتے تھے کہ وہ اور تمام ریاستی ادارے ایک صفحے پر ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جو اقتدار سے نکلنے کے بعد ہروزیرِاعظم کرتا ہے۔جب کوئی شخص اقتدار میں ہوتا ہے تو وہ اس وقت اپنے اختیارات واپس لینے کی کوشش کیوں نہیں کرتا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان حکومت میں تھے تو اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ یہ پہلی حکومت ہے جس میں سارے فیصلے ایک صفحے پر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اب یہ کہنا درست نہیں ہے۔ یا تو عمران خان پہلے غلط بیانی کر رہے تھے یا اب کر رہے ہیں۔
'اگر فیصلے کوئی اور کر رہا تھا تو پھر مبینہ سازش کی ضرورت کیا تھی؟'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ اگر عمران خان کے پاس ایسی حکومت تھی جس میں انہیں فیصلے کرنے کی اجازت نہیں تھی تو انہیں خود اسے لات ماردینا چاہیے تھا۔ اگر فیصلے کوئی اور کر رہا تھا تو پھرمبینہ سازش کی ضرورت کیا تھی؟ انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں تو عمران خان کے خلاف سازش نہیں ہوئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب وہ اقتدار میں تھے تو کبھی انہوں نے یہ بات نہیں کی بلکہ وہ تو یہ کہتے رہے کہ اختیارات سارے ان کے پاس ہیں۔ وہ جس کو چاہے ہٹا سکتے ہیں اور لوگ ان کے حکم کے پابند ہیں۔تاہم اب عمران خان جن لوگوں کا سامنا کر رہے ہیں، جہاں ان کی کارکردگی زیرِبحث آ ر ہی ہےاورمختلف سوالات اٹھائے جا رہے ہیں تو انہوں نے یہ مؤقف اختیار کرلیا ہے کہ وہ فیصلے نہیں کرسکتے تھے۔اگر اختیار ہوتا تو وہ شیرشاہ سوری کے ریکارڈ توڑ دیتے۔
مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی اس بات پر ان کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کیا جاسکتا ہے۔
'پاکستان میں سیاسی قوتیں اتنی مضبوط نہیں رہیں کہ حکومتیں چلا سکیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ماضی میں بھی ایسے بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اندر سیاسی قوتیں اتنی مضبوط نہیں رہی اور ایسے افراد نہیں رہے جو حکومتیں چلا سکیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہی پاکستان کا بڑا المیہ ہے کہ سول ادارے کارکردگی کے حساب سے ناکام ہوچکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی قوتوں اور حکومتوں کا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر انحصار بڑھتا گیا اور جب ان پر انحصارکیا جاتا رہا تو یقیناً وہ فیصلوں پر بھی اثرانداز ہوئے ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان میں سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہوں گی اور ایسے ٹیکنوکریٹ نہیں ہوں گے جو حکومتی معاملات چلا سکیں تو سیاسی حکومتوں کو دوسری قوتوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔
سلمان غنی کے مطابق کوئی بھی وزیراعظم جب وزیراعظم ہاؤس میں ہوتا ہے تو ایسی بات اس لیے نہیں کرتا کہ اس سے ان کی مقبولیت پر اثر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان پہلے پاکستانی فوج اور جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتے نظر آتے تھے۔ اب اگر ایسا ہے تو قوم کو اعتماد میں لیں اور کھل کر بتائیں کہ کیوں اختیارات حاصل نہیں تھے۔
مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا جن کی طرف اشارہ ہے وہ سیاست سے دور تو بعد میں ہوئے ہیں۔اس سے پہلے تو وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے اور ان کے احکامات بجا لا رہے تھے۔
'عمران خان جن کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا'
نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے جن کی طرف اشارہ کرکے بات کی ہے ان کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بیان چوں کہ عمران خان نے دیا ہے اور وہ اقتدار کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ سارے فیصلے وہ خود کرتے تھےتو توجہ اسی پر دی جائے گی۔
نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو ایسے وقت میں وہ بات کرنی چاہیے جو انہیں نظر آرہی ہوتی ہو۔ان کے بقول اس چیز کو تبھی بدلا جاسکتا ہے جب سیاست دان تمام فیصلے اہلیت اور ایک وژن کے مطابق کریں۔وہ کسی بھی فیصلے اور خاص طور پر معیشت سے متعلق فیصلوں کے لیے کسی طاقت ور ریاستی ادارے کی طرف نہ دیکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بطور ریاستی سربراہ سیاسی رہنماؤں کو اپنے ماتحت اداروں اور ایجنسیوں سے مختلف امور پر رائے ضرور لینی چاہیے لیکن فیصلے خود کرنے چاہئیں۔
صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ اس بات کا اعتراف کیا جانا چاہیے کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو خود سیاسی رہنما سیاست میں لائے ہیں۔ جہاں تک فوج کے پیشہ ورانہ ہونے کا تعلق ہے تو وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ معاملات کو دیکھ رہی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں فوج نے کارکردگی دکھائی ہے۔دنیا کے تمام اہم مسائل پر ان کی مشاورت رہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ دنیا بھر سے پاکستان آنے والے سفارت کار وزیراعظم ہاؤ س کے بعد پاکستان کی فوج کے سپہ سالار سے ملتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا اپنا ایک کردار ہے، جس کا دنیا کے مختلف ملکوں کو بھی ادراک ہوگیا ہے۔