برطانیہ کی وزیرِ اعظم لز ٹرس نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق لز ٹرس نے جمعرات کو اپنی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے باہر صحافیوں سے گفتگو کے دوران مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
انہوں نے اپنے بیان میں اعتراف کیا کہ کنزرویٹو پارٹی نے انہیں جو مینڈیٹ دیا وہ اس کے مطابق عمل کرنے میں ناکام رہیں۔
انہوں ںے بتایا کہ وہ برطانیہ کے بادشاہ کو وزارتِ عظمی اور کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی سے مستعفی ہونے کے فیصلے سے آگاہ کرچکی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک پارٹی کے نئے سربراہ کا انتخاب ہوجائے گا۔ جس کے بعد پارٹی برطانیہ کے معاشی استحکام اور قومی سیکیورٹی کے لیے اپنا سفر جاری رکھے گی۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہ کہا کہ نئے وزیر اعظم کے منتخب ہونے تک وہ اپنے عہدے پر کام کرتی رہیں گی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق لز ٹرس کو اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے معاشی وعدوں پر عمل کرانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد انہیں اپنی جماعت ہی میں تنقید کا سامنا تھا۔
گزشتہ روز ان کی کابینہ میں شامل وزیرِ داخلہ سوئیلا بریو مین نے حکومت کی کارکردگی پر ’تحفظات‘ کا اظہار کرتے ہوئے استعفی دے دیا تھا۔
واضح رہے کہ قانون سازی اور دیگر پالیسی معاملات پر اختلافات کے بعد خود پر ہونے والی تنقید کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ میدان چھوڑنے والی نہیں ہیں تاہم جمعرات کو انہوں ںے اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے لز ٹرس کے استعفے پر اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ اور برطانیہ مضبوط اتحادی اور پائیدار دوست ہیں اور یہ حقیقت کبھی نہیں بدلے گی۔
صدر نے مزید کہا کہ لز ٹرس نے اپنے دور میں اس شراکت داری کو آگے بڑھایا اور یوکرین جنگ میں روس کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے کئی عملی اقدامات کیے جس کے لیے وہ اُن کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے کہا کہ امریکہ، برطانوی حکومت کے ساتھ اپنے قریبی تعاون کو برقرار رکھے گا کیوں کہ ہم اپنی اقوام کو درپیش عالمی چیلنجز کے مقابلے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔
مستعفی ہونے والی وزیرِ اعظم لز ٹرس صرف چھ ہفتے تک اس عہدے پر فائز رہیں جو برطانیہ کی تاریخ میں کسی وزیرِ اعظم کا مختصر ترین دور ہے۔
لز ٹرس نے رواں برس چھ ستمبر کو وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالا تھا۔ وہ ملک میں جاری معاشی بحران اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے وعدے کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی تھیں۔
منصب سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد وہ ٹیکسوں میں کٹوتی اور برطانوی کرنسی کو مستحکم کرنے جیسے معاشی منصوبے پر عمل درآمد نہیں کراسکیں جس کی وجہ سے انہیں اپنے وزیرِ خزانہ اور پارٹی میں قریبی اتحادی کواسی کوارٹینگ سے عہدہ واپس لے لیا تھا۔
معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد میں ناکامی کی وجہ لزٹرس کی مقبولیت ان کی اپنی جماعت میں تیزی سے کم ہونا شروع ہوگئی تھی۔
واضح رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والے قدامت پسند کنزرویٹو پارٹی مسلسل سیاسی بحران کا سامنا کررہی ہے۔
رواں برس مستعفی ہونےو الے برطانیہ کے وزیرِ اعظم بورس جانسن کو کرونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران تقریبات منعقد کرنے کی خبروں کی وجہ سے سیاسی دباؤ کا سامنا تھا۔ برطانوی اور عالمی میڈیا میں یہ ’پارٹی گیٹ‘ اسکینڈل کے عنوان سے رپورٹ ہوا تھا۔
اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پیدا ہونے والے بحران کے باعث بورس جانسن کو اپنی ہی کابینہ کے بیشتر وزرا کے استعفے اور پارٹی میں اختلافات کا سامنا تھا جس کے بعد انہوں نے رواں برس جولائی میں کنزرویٹو پارٹی کی قیادت سےمستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا تھا۔