پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں اتوار کو میلبرن میں ایک بار پھر آمنے سامنے آ رہی ہیں۔ ایک برس کے دوران یہ چوتھا موقع ہے جب دونوں ٹیمیں اس فارمیٹ میں ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ دو میں پاکستان جب کہ ایک میں بھارت نے کامیابی سمیٹی، لیکن میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں فتح کون سمیٹے گا اس پر دونوں ملکوں میں بات ہو رہی ہیں۔
گزشتہ سال ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اور رواں برس ایشیا کپ کےاہم میچ میں کامیابی کو پاکستانی شائقین بھلانا نہیں چاہ رہے ہیں اور بھارتی شائقین بھلا نہیں پا رہے۔لیکن آسٹریلیا کے میدان دبئی سے مختلف ہوں گے جس کا اندازہ دونوں ٹیموں کے کپتانوں کو بخوبی ہوگا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق 23 اکتوبر کو ہونے والا میچ بارش سے متاثر ہونے کا امکان ہے، لیکن شائقین کرکٹ بھرپور مقابلے کے لیے پرامید ہیں۔ اگر پاکستان کا بالنگ اٹیک شاہین شا ہ آفریدی کی واپسی سے مضبوط ہوا ہے تو بھارتی ٹیم کے بلے بازوں کا فارم میں ہونا ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
اس مقابلے کی گونج صرف کرکٹ کے ایوانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہالی وڈ اسٹار ڈوین 'دی راک' جانسن نے بھی روایتی حریفوں کے درمیان اس مقابلے کا اعلان ایک ٹی وی پرومو میں کیا۔
براڈکاسٹ پارٹنر اسٹار اسپورٹس پر اپنی فلم 'بلیک ایڈم' کی تشہیر کے دوران انہوں نے اپنے انداز میں پاک بھارت ٹاکرے کا اعلان کیا جس سے ان کے مداحوں اور کرکٹ شائقین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں بھارت کی سبقت، لیکن پاکستان ٹیم کی بھرپور فارم
اگر پاکستان اور بھارت کے ماضی میں کھیلے گئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز پر نظر ڈالی جائے تو 11 میں سے سات میچ بھارت کے نام رہے جب کہ پاکستان نے صرف تین میچز میں کامیابی حاصل کی۔
ان تین میں سے دو میچ گزشتہ 12 ماہ کے دوران کھیلے گئے، گزشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں تو پاکستان نے بھارت کو 10 وکٹوں کے بڑے مارجن سے شکست دی ہی تھی، رواں سال ایشیا کپ کے سپر فور میچ میں بھی گرین شرٹس پانچ وکٹوں سے سرخرو ہوئے۔
سن 2007 میں کھیلے گئے پہلے ورلڈ کپ کا ایک میچ ٹائی ہوا تھا جس کا فیصلہ اس وقت کے قانون کے مطابق 'بول آؤٹ' پرہوا جس میں بھارت نے باآسانی پاکستان کو شکست دی تھی۔
لیکن نئےمیدان اور نئے امتحان میں کون سی ٹیم کامیاب ہوگی، اس کا فیصلہ اتوار کو ہوگا جب میلبرن کے مقام پر روایتی حریف، روایتی انداز میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں گی۔
ٹی ٹوئنٹی رینکنگ کے دو ٹاپ بلے باز محمد رضوان اور سوریا کمار یادیو آمنے سامنے
پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں اتوار کو ہونے والے میچ سے اپنی ورلڈ کپ مہم کا آغاز کریں گی ، اس ٹاکرے پر بات کرنے سے پہلے اگر آئی سی سی کی ٹی ٹوئنٹی رینکنگ پر ایک نظر ڈال لی جائے تو اس میچ کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا۔
بلے بازوں کی فہرست میں ٹاپ تین بیٹرز میں سے دو کا تعلق پاکستان اور ایک کا بھارت سے ہے۔
پاکستانی وکٹ کیپر محمد رضوان اگر پہلے اور کپتان بابر اعظم تیسری پوزیشن پر ہیں تو ان دونوں کے درمیان بھارتی بلے باز سوریا کمار یادیو موجود ہیں۔اس کے علاوہ دونوں ٹیموں کا کوئی اور بلے باز اس فہرست کا حصہ نہیں۔
محمد رضوان نے حال ہی میں نیوزی لینڈ میں کھیلے جانے والےسہ ملکی ٹورنامنٹ میں پاکستان کی جیت میں اہم کردار ادا کیا جب کہ جنوبی افریقہ کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچز میں دو نصف سینچریاں بنانے والے سوریا کمار یادیو بھرپور فارم میں ہیں۔
اگر دونوں ٹیموں کے بیٹنگ آرڈر کو دیکھا جائے تو پاکستان کے پاس دنیا کے بہترین اوپنرز ہیں اور بھارت کے پاس مستند مڈل آرڈر ، بھارت کی ٹاپ آرڈر کی ناکامی اور پاکستان کے مڈل آرڈر کے مسائل مشترکہ ہیں۔ البتہ آسٹریلوی وکٹیں جس بلے باز کو راس آگئیں، وہ وہاں رنز کے انبار لگاسکے گا۔
پاکستان کی مضبوط پیس بیٹری
دوسری جانب آئی سی سی رینکنگ میں ٹاپ ٹین بالرز میں دونوں ٹیموں کا کوئی بالر شامل نہیں البتہ اس کی سب سے بڑی وجہ شاہین شاہ آفریدی اور جسپرت بمراہ کی انجری ہوسکتی ہے۔
شاہین شاہ آفریدی کی ٹیم میں مکمل صحت یابی کے ساتھ واپسی سے جہاں پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے وہیں تجربہ کار محمد شامی کی آخری لمحات پر اسکواڈ میں انٹری بھارت کے لیے سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔
شاہین آفریدی کی واپسی سےپاکستان سلیکٹرز کے مسائل میں ضرور اضافہ ہوگا کیوں کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ فائنل الیون میں ان کے ساتھ ساتھ کس پیسر کو رکھیں۔
ان کی غیر موجودگی میں یہ بیڑہ حارث رؤف نے اٹھایا ہوا تھا لیکن محمدوسیم جونیئر اور نسیم شاہ کا فارم میں ہونا ان کے حق میں جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ بھارت کے خلاف اپنے آخری میچ میں شاہین شاہ آفریدی نے پہلی ہی سات گیندوں پر دونوں بھارتی اوپنرز کو آؤٹ کرکے دنیائے کرکٹ کو حیران کردیا تھا۔
ورلڈ کپ کے وارم اپ میچ میں جس طرح انہوں نے افغان بلے باز رحمان اللہ گلباز کو زخمی کیا، اس کے بعد مخالف ٹیم انہیں محتاط ہوکر کھیلیں گی۔
ادھر جسپرت بمراہ کی غیر موجودگی میں بھارتی پیس اٹیک بھوونیشور کمار،محمد شامی، ارشدیپ سنگھ،اور ہاردک پانڈیا پر مشتمل ہوگا۔
گزشتہ ماہ ہونے والے ایونٹ میں بھوونیشور کمار کو بھارتی کپتان نے اسٹرائیک بالر کے طور پر استعمال کیا تھا لیکن مسلسل دو میچز میں اپنے آخری اوور میں رنز دینے کی وجہ سے میگا ایونٹ میں شاید ان کو یہ ذمہ داری نہ ملے۔
تجربہ کار محمد شامی جنہوں نے وارم اپ میچ میں آسٹریلیا کے خلاف شان دار آخری اوور پھینکا، یہ ذمہ داری انہیں ملنے کا قومی امکان ہے۔
پاکستان کے پاس آل راؤنڈرز زیادہ، بھارت کے پاس بہتر فیلڈرز
آئی سی سی کے آل راؤنڈرز کی فہرست میں ہاردیک پانڈیا کی موجودگی پاکستان کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے، تاہم پاکستانی آل راؤنڈرز بھی کسی سے کم نہیں۔ محمد نواز کی حال میں عمدہ کارکردگی اور شاداب خان کی فٹ ہوکر ٹیم میں واپسی پاکستان کے لیے سازگار ثابت ہوسکتی ہے۔
آسٹریلوی میدان میں فاسٹ بالرز کو زیادہ مدد تو ملے گی، لیکن لمبی باؤنڈری کی وجہ سے اسپنرز کا کردار بھی اہم ہوگا اور دونوں ٹیمیں اس شعبے میں ہم پلہ ہی ہیں۔
بھارتی ٹیم میں انجرڈ رویندرا جڈیجا کی جگہ تجربہ کار روآر ایشون شامل ہیں جن کا ساتھ دینے کے لیے یوزویندرا چیہل اور اکثر پٹیل اسکواڈ کا حصہ ہیں جب کہ پاکستان ٹیم میں یہ ذمہ داری محمد نواز، شاداب خان اور افتخار احمد نبھائیں گے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سب سے بڑا فرق فیلڈنگ کا ہے، انگلینڈ کے خلاف وارم اپ میچ میں جس خراب انداز میں پاکستانی کھلاڑیوں نے فیلڈنگ کی۔ بھارت کے خلاف سپر 12 مرحلے میں اس قسم کی کارکردگی انہیں مہنگی پڑسکتی ہے۔
اس کے برعکس بھارتی ٹیم نے وارم اپ میچز میں اچھی فیلڈنگ کی خصوصاً وراٹ کوہلی کی فیلڈنگ سے شائقین محظوظ ہوئے۔
ماہرین کی رائےمیں پاکستان اور بھارت دونوں ٹیمیں سیمی فائنل میں جگہ بنانے کی اہلیت رکھتی ہیں، تاہم 23 اکتوبر کوجو بھی ٹیم یہ میچ جیتے گی، پوائنٹس ٹیبل پر وہ پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہو گی۔