رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش کے خلاف کوہلی کی 'فیک فیلڈنگ' پر بحث


کرکٹ کے قوانین پر بحث نئی تو نہیں لیکن آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امپائرز نے شائقین کو اس پر بات کرنے کے کئی مواقع فراہم کیے ہیں۔ بدھ کو بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان میچ میں بھی کئی ایسے مواقع آئے جس پر شائقین کرکٹ نے سوشل میڈیا پر بحث میں حصہ لیا۔

بارش سے متاثرہ میچ بھارت نے پانچ رنز سے جیتا لیکن بنگلہ دیشی شائقین دو بڑے تنازعات کو بھلانے میں ناکام رہے، جس کا وراٹ کوہلی حصہ تھے۔

ایک تو انہو ں نے اپنی اننگز کے دوران ٹھیک اسی طرح امپائرز سے نو بال طلب کی جیسے پاکستان کے خلاف میچ میں کی تھی۔ دوسرا ان کی 'فیک فیلڈنگ' اس وقت موضوعِ بحث ہے۔

'فیک فیلڈنگ' کا واقعہ میچ کے ساتویں اوور میں اس وقت پیش آیا جب بنگلہ دیش کے اوپنرز نجم الحسین اور لٹن داس بھارتی بالرز کے خلاف عمدہ بیٹنگ کررہے تھے۔

نجم الحسین نے ڈیپ بیک ورڈ پوائنٹ کی جانب شاٹ کھیلا جس کے بعد باؤنڈری کے قریب موجود فیلڈر ارشدیپ سنگھ نے گیند پکڑ کر وکٹ کیپر کو تھرو کی جو درمیان میں کھڑے فیلڈر وراٹ کوہلی کے سر سے ہوتی ہوئی پہنچی۔ لیکن اس لمحے کوہلی نے ایسے ظاہر کیا جیسے وہ تھرو پکڑ کر دوسرے اینڈ پر پھینک رہے ہیں۔

کوہلی کی اس 'فیک فیلڈنگ ' کو نہ کھلاڑیوں نے محسوس کیا اور نہ ہی امپائرز نے۔ لیکن میچ کے بعد بنگلہ دیشی وکٹ کیپر نور الحسن نے اس کا ذکر کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

میچ کے بعد ایڈیلیڈ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے نورالحسن نے کوہلی کی تھرو پھینکنے کی 'ایکٹنگ' کی جانب توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کوہلی کی اس حرکت کی وجہ سے ان کی ٹیم کو پانچ اضافی رنز مل سکتے تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

کیا نورالحسن کا الزام درست ہے؟ کیوں کہ اگر امپائرز بنگلہ دیشی ٹیم کو پانچ اضافی رنز دے دیتے تو میچ کا فیصلہ بنگلہ دیش کے حق میں ہوتا۔

گزشتہ سال جب جنوبی افریقہ کے کوئنٹن ڈی کوک نے ایک ون ڈے انٹرنیشنل میں 'فیک فیلڈنگ' کے ذریعے پاکستانی بلے باز فخر زمان کو آؤٹ کیا تھا، تب بھی اس پر بہت بحث ہوئی تھی۔

کرکٹ قوانین کے مطابق فیک فیلڈنگ ایک ایسا عمل ہے جس کی اجازت نہیں۔ قانون 41 کی شق نمبر پانچ کے مطابق اگر کسی فیلڈر نے رن لیتے ہوئے بلے باز کو روکنے یا اس کادھیان بٹانے کی کسی بھی طرح کوشش کی تو امپائر نہ صرف اس گیند کو ڈیڈ بال قرار دے سکتا ہے بلکہ بیٹنگ سائیڈ کو پانچ اضافی رنز بھی ایوارڈ کرسکتا ہے۔

کوہلی کی 'فیک تھرو' پر نہ تو امپائر نے گیند کو ڈیڈ بال قرار دیا اور نہ اس پر اضافی رنز دیے۔

میچ کے دوران 'فیک تھرو' ڈرامے سے قبل ایک اور تنازع نے اس وقت جنم لیا بنگلہ دیش نے بغیر کسی نقصان کے سات اوور میں 66 رنز بنا لیے تھے اور اس موقع پر بارش ہو گئی جس کی وجہ سے میچ روکنا پڑا۔

بارش کے تھمنے کے بعد امپائرز نے کھیل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تو بنگلہ دیش کے کپتان شکیب الحسن نے امپائرز نے بات کی اور ان کی توجہ گیلے گراؤنڈ کی جانب دلائی۔ لیکن امپائرز میچ دوبارہ شروع کرنے میں کامیاب ہوئے۔

بارش کے وقفے کے بعد شروع ہونے والے کھیل میں بنگلہ دیش کی نہ صرف وکٹیں گرتی چلی گئیں بلکہ میچ بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ بھارت نے یہ میچ پانچ رنز سے اپنے نام کیا۔

بعدازاں بنگلہ دیش کے کپتان سے ان کی امپائرز سے ہونے والی بحث پر سوال کیا گیا تو انہوں نے اس پر زیادہ بات نہیں کی اور خود کو اس تنازع سے دور رکھا ۔

شکیب نے بس اتنا کہا کہ امپائرز انہیں میچ کی صورتِ حال سے آگاہ کررہے تھے۔

لیکن سوشل میڈیا پر صارفین اس حوالے سے خاموش نہیں رہے۔ کسی نے امپائرز کی جانب داری پر سوال اٹھایا تو کسی نے آئی سی سی سے دریافت کرنا چاہا کہ وہ کس کی سائیڈ پر ہیں۔

کسی نے تو اعلان کردیا کہ آئی سی سی کا نیا قانون آیا ہے کہ اگر بھارتی بلے باز نو بال مانگے، تو نوبال دے دینی چاہیے۔

ایک صارف نے ٹوئٹر پر اپنا نام 'ڈینس فیک فیلڈنگ' رکھتے ہوئے اس فعل کی طرف اشارہ کیا جس کو ان کے بقول امپائرز نے نوٹ ہی نہیں کیا، کیوں کہ ا س میں بھارتی کھلاڑی شامل تھا۔

بھارتی صحافی اویناش آریان نے تو ٹویٹ میں لکھا کہ بی سی سی آئی کو چاہیے کہ ورلڈ کپ خرید لے۔

آسٹریلوی صحافی میلینڈا فیریل نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر بتایا کہ شکیب الحسن کے خیال میں گیلی فیلڈ سے بیٹنگ سائیڈ کو فائدہ ہوتا ہے، اس لیے انہوں نے میچ جاری رکھنے پر رضا مندی ظاہر کی۔

لیکن دوسری طرف سری لنکا سے تعلق رکھنے والے ڈینئیل ایلگزینڈر نے لٹن داس کی انجری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے آئی سی سی سے سوال کیا کہ گیلے گراؤنڈ پر میچ جلد بازی میں تو شروع نہیں کیا گیا؟

معاملہ صرف کھلاڑیوں تک ہی محدود نہیں رہا ، کسی نے جنوبی افریقی امپائر مرائز ایرازمس کو 'مین آف دی میچ' کا ایوارڈ دیا۔تو کسی کے خیال میں آئی سی سی کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے اپنا نام بدل کر انڈین کرکٹ کونسل رکھ لینا چاہیے۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG