پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے دوران حراست کسی شخص کو سرکاری اہلکاروں کی طرف سے کیے جانے والے تشدد کی تمام کارروائیوں سے تحفظ فراہم کرنے کا بل، ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ (روک تھام اور سزا) بل، 2022 پر دستخط کردیے ہیں جس کے بعد یہ باضابطہ قانون بن گیا ہے۔
اس سے قبل پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ نے اس بل پر غور کرنے کے بعد اسے منظور کیا تھا۔ اس قانون کے بننے کے بعد نیشنل کمیشن فار ہیومین رائٹس کو ایف آئی اے کے ساتھ مل کر متاثرہ افراد کی شکایات کے اندراج کا اختیار دیا گیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس قانون کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ دوران حراست تشدد روکنے کے لیے قانون پہلے سے موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرہ میں تفتیش کے جدید طریقے نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی تشدد کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس قانون کے بننے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
پاس کیے گئے بل کے اغراض و مقاصد میں لکھا گیا ہے کہ یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ براہ راست یا ادارہ جاتی طریقہ کار کے ذریعے اپنے شہریوں کو ہر قسم کے تشدد کے خلاف تحفظ اور منصفانہ ٹرائل کا حق فراہم کرے۔
آئینی دفعات اور ضمانتوں کے باوجود پاکستان کے فوجداری قانون کے اندر تشدد کی کارروائیوں کی کوئی قطعی تعریف یا سزا نہیں ہے۔ لہذا بل کا مقصد سرکاری اہلکاروں کے زیر حراست افراد کے خلاف تشدد، زیر حراست موت اور زیر حراست عصمت دری کی کارروائیوں کو مجرمانہ بنانا اور روکنا اور اس طرح کی کارروائیوں کے متاثرین کو معاوضہ فراہم کرنا ہے۔
بل میں کہا گیا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے "کنونشن اگینسٹ ٹارچر" اور دیگر ظالمانہ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا (یو این سی اے ٹی) اور شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) کا دستخط کنندہ ہے، جو دونوں کسی بھی شخص کے وقار کے حق کا تحفظ کرتے ہیں، جسے حراست میں لیا گیا ہو۔ بل کے مطابق کوئی بھی سرکاری اہلکار جو تشدد کا ارتکاب کرے گا یا اس کی حوصلہ افزائی کرے گا یا اس کی سازش کرے گا اسے سزا دی جائے گی ۔ یہ جرم قابل ادراک، ناقابل تسخیر اور ناقابل ضمانت ہوگا۔
بل کے ایک سیکشن میں لکھا گیا کہ کوئی بھی شخص جو حراست میں موت کے جرم کا ارتکاب کرتا یا اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے یا اس کی سازش کرتا ہے اسے وہی سزا دی جائے گی جو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 میں بیان کی گئی ہے جبکہ بل میں حراستی عصمت دری کی سزا بھی تجویز کی گئی ہے۔
کیا اس قانون سے کوئی فائدہ ہوگا؟
انسانی حقوق پر کام کرنے والے اور لاپتہ افراد کے کئی کیسز میں پیش ہونے والے شبیرگگیانی ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ اس قانون کے بنانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، فرق اس قانون کے بننے سے نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد سے پڑے گا۔" یہ قانون، قانون نافذ کرنے والے ادارے، پولیس اور دیگر تفتیشی ایجنسیوں کے بارے میں ہے اور یہ ادارے اپنے ہی خلاف کیسے کارروائی کریں گے۔ لہذا میرے خیال میں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔"
شبیر گگیانی کا کہنا تھاکہ پشاور میں ایک کیس ہوا جس میں ایک شخص کو برہنہ کرکے تشدد کیا گیا اور اس کی ویڈیو بنا کر وائرل کردی گئی، اس پر عدالت نے پولیس کے خلاف کیس درج کرنے اور تھانوں میں کیمرے لگانے کی ہدایت سمیت کئی احکامات دیے ، لیکن کسی بھی بات پر عمل درآمد نہیں ہوا اور اب بھی ملک کے تقریباً ہر پولیس سٹیشن میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ یہ صرف ایک دھوکہ ہے اور اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوگا۔
انسانی حقوق کی کارکن زہرہ یوسف نے کہا کہ قانون پہلا قدم ہوتا ہے اورقانون کا بننا حکومت کی نیک نیتی کو ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے ٹارچر کو غیرقانونی قرار دیا ہے، پاکستان نے انٹرنیشنل کنونشن پر ایک عرصہ پہلے سائن کیا تھا، اس بارے میں قانون سازی پر تاخیر ہوئی لیکن ہم اسے ایک مناسب قدم سمجھتے ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس افضل شگری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹارچر کے حوالے سے پاکستان پینل کوڈ میں دفعات موجود ہیں لیکن اس پر مکمل درآمد نہیں ہوتا۔ یہ بات درست ہے کہ جن لوگوں کے خلاف شکایت ہو وہی لوگ اس پر کیا کارروائی کریں گے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون میں لکھ دیا جائے کہ ایسے معاملات کی تفتیش کسی دوسرے ضلع سے آنے والا کم سے کم ایک رینک سینئر افسر ہی کرسکے گا۔ ایسے قانون بنانے سے فائدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس بارے میں مکمل پروسیجر زنہ تشکیل دیے جائیں۔
اسلم خاکی ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے قانون میں پہلے بھی دوران حراست تشدد یا ہلاک کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن ماضی میں پروسیجرز نہ ہونے کی وجہ سے یہ لگاتار جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں اعظم سواتی کی طرف سے دوران حراست تشدد کا الزام لگایا گیا ہے، اب میکانزم تشکیل دیا جائے تو اسے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
اس قانون پر عمل کیسے ہوسکتا ہے؟
اس سوال پر کہ اس قانون پر کیسے عمل درآمد ہوسکتا ہے، شبیر گگیانی ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات اور الزامات کے لیے ایک الگ سے ادارہ تشکیل دینا چاہیے، ایک الگ عدالت بننی چاہیے اور وہ ادارہ کسی بھی شکایت پر تفتیش کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہو اور عدالت ایسے افراد کو سخت سزا دے ۔
انہوں نے کہا کہ آپ "مسنگ پرسن کمیشن" کو ہی دیکھ لیں، یہ کمیشن غائب کرنے والے اداروں اور پولیس اہلکاروں کو ہی تفتیش کرنے اور سزا دلوانے کا حکم جاری کردیتا ہے لیکن یہ افراد اپنے ہی خلاف کیسے کارروائی کریں گے۔ لہذا جب تک اس ضمن میں الگ سے ادارہ اور عدالتیں تشکیل نہیں ہونگی اس وقت تک یہ قانون کوئی فائدہ نہ دے سکے گا۔
اسلم خاکی نے کہا کہ جس ادارے کے خلاف شکایت آئے اسی ادارے سے تفتیش کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ اگر پولیس کے خلاف کوئی شکایت آئے تو ایف آئی اے کو معاملہ کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ایک خصوسی ٹریبونل ہونا چاہیے جو اس قسم کے معاملات کی نگرانی کرے اور زمہ داران کو سزا دلوائے۔
انسانی حقوق کی کارکن زہرہ یوسف نے کہا کہ ہم اس قانون کے تحت کارروائی کے لیے الگ عدالتوں کا مطالبہ تو نہیں کرتے لیکن ایسے معاملات کو دیکھنے کے لیے الگ سے ادارہ تشکیل دینا چاہیے تاکہ ان میں شفافیت آسکے، ایک ایسی مانیٹرنگ باڈی ہو جو تمام معاملات کا جائزہ لے سکے۔ اس کے علاوہ پولیس اور تفتیشی اہلکاروں کی تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی تفتیش مکمل کرنے کی کوشش میں اس جرم کا ارتکاب نہ کریں۔
دوران حراست تشدد کا کلچر
حراست میں افراد کی تشدد کے کلچر کے بارے میں افضل شگری کا کہنا تھا کہ تفتیش کے جدید طریقے نہ ہونے کی وجہ سے اکثر تشدد کے ذریعے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باقی ملزمان پر تشدد کی ایک بڑی وجہ ہماری سوسائٹی کا نظام ہے۔ انہوں نےکہا کہ ان کے پاس کئی کیسز میں مدعی آکر یہ شکایت لگایا کرتے تھے کہ آپ لوگوں نے ملزم کو کرسی پر بٹھایا ہوا،اسے چائے پلا رہے ہیں ، ان کا مطالبہ ہوتاتھا کہ ملزم جب پولیس حراست میں ہے تو اس کو آرام سے کیوں رکھا گیا ہے اسے جوتے کیوں نہیں مارے جارہے۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ ایسے مدعی کے مطالبات پر پولیس نے اسے پریکٹس بنالیا اور ملک میں ہر علاقہ کے کلچر کے مطابق قانون ہونے کے باجود دوران حراست تشدد اور زیادہ ہونے کی صورت میں ہلاکتوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔