امریکہ میں ووٹرز کو پولنگ کے لیے مقررہ دن سے قبل ہی اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت دستیاب ہے لیکن اس کے باوجود مکمل انتخابی نتائج آتے آتے کئی دن لگ جاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں الیکشن کی رات کو جاری ہونے والے زیادہ تر نتائج غیر سرکاری اور نامکمل ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں ووٹوں کی گنتی ہوتی ہے تو حتمی نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوتاہے۔
نتائج مرتب ہونے کے پیچیدہ عمل کی وجہ سے کئی مرتبہ حتمی نتائج کے اعلان میں کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اس طویل دورانیے کے مختلف اسباب ہیں۔
ریاستوں کو حاصل قانون سازی کی آزادی
دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح امریکہ میں انتخابات کے لیے پورے ملک میں یکساں قوانین نہیں ہیں۔ بلکہ ہر ریاست کو اپنے قواعد و ضوابط بنانے کی آزادی ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ میں انتخابات کے دوران بیک وقت کئی نمائندوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ بیلٹ پیپر پر صدر سے لے کر کانگریس کے ارکان ، ریاستی قانون ساز نمائندوں، گورنرز اور ٹاؤن کونسلز کے نمائندوں کے انتخاب بھی بیک وقت ہوتے ہیں۔
امریکہ میں الیکشن کے لیے مقررہ دن کو ’الیکشن ڈے‘ کہا جاتا ہے۔ وسط مدتی انتخابات کے لیے اس برس آٹھ نومبر الیکشن ڈے ہے۔ صدارتی انتخاب کے دو سال بعد نومبر میں پہلے پیر کے بعد آنے والے منگل کو یہ انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ لیکن انتخاب چاہے صدارت کا ہو یا مڈٹرم، اس میں الیکشن کے دن سے قبل ڈاک کے ذریعے یا براہِ راست ووٹ دینے کی سہولت ہوتی ہے۔
وسط مدتی الیکشن میں صدر کا انتخاب نہیں ہوتا البتہ ایوانِ نمائندگان کے تمام 435 ارکان، سینیٹ کے ایک تہائی ارکان اور کئی ریاستوں کے گورنر وغیرہ کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ اس طرح بیک وقت مختلف نوعیت کے انتخابات اور دیگر پیچیدگیوں کی وجہ سے ووٹوں کی گنتی اور تصدیق کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
بعض ریاستوں کے قوانین کے مطابق مقامی انتخابی عہدے دار الیکشن کے دن سے قبل ہی ڈاک کے ذریعے موصول ہونے والے بیلٹس کی گنتی شروع کرسکتے ہیں اور اس کے لیے انہیں کئی دنوں کا وقت مل جاتا ہے۔ اس میں شناختی معلومات کی تصدیق وغیرہ بھی شامل ہوتی ہے۔
بعض ریاستوں میں الیکشن کے دن سے قبل ڈاک سے موصول ہونے والے بیلٹس کھولنے پر پابندی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ موصول ہونے والے بہت سے بیلٹس کی گنتی الیکشن کے دن کے بعد اگلے روز یا اس کے بھی کئی دن بعد تک مکمل نہیں ہوتی۔اسی لیے مجموعی نتائج مرتب کرنے میں وقت لگتا ہے۔ انتخابی نتائج کے اعلان میں وقت لگنے کے کچھ اور بھی اسباب ہیں۔
کیا صبح سے پہلے نتائج معلوم ہونا ضروری ہے؟
بعض امیدوار نتائج کے اعلان میں ہونے والی تاخیر کو انتخابی عمل پر شبہات کی بنیاد بناتے ہیں۔ ایریزونا کے گورنر کا انتخاب لڑنے والی ری پبلکن امیدوار کاری لیک نے اگست میں اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ رائے دہندگان کو پہلے الیکشن کی رات ہی فاتح کے بارے میں پتا چل جاتا تھا لیکن اب ہمارے پاس یہ حق نہیں ہے۔
درحقیقت اس بات کا انتخابی نتائج کے شفاف اور درست ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ ان کا اعلان الیکشن ڈے کی رات ہی کو ہو۔
ایریزونا کے قوانین کے مطابق ڈاک کے ذریعے ارسال کردہ بیلٹس سمیت تمام ووٹ الیکشن کے دن شام سات بجے تک موصول ہونا ضروری ہیں۔ لیکن انتخابی حکام کو ان کی گنتی کے لیے 20 دن تک کا وقت دیا جاتا ہے۔
ریاست نیواڈا میں تاخیر سے موصول ہونے والے میل بیلٹس کی گنتی کے لیے چار دن کا اضافی وقت دیا جاتا ہے جب کہ لفافہ بند بیلٹس میں پائی جانے والی غلطیاں یا درکار معلومات فراہم کرنے کے لیے ووٹرز کو مزید دو دن کی مہلت ملتی ہے۔ رواں برس ووٹرز کو دیے گئے وقت کے حساب سے نیواڈا میں حتمی نتائج 18 نومبر کو جاری کیے جائیں گے۔
امریکہ میں فرانس جیسے الیکشن کا مطالبہ؟
رواں برس مئی میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانس کے حالیہ صدارتی انتخاب کا موازنہ امریکہ سے کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا تھا کہ یہاں انتخابی نتائج فرانس کی طرح فوری طور پر کیوں جاری نہیں ہوتے۔
نتائج مرتب ہونے کے دورانیے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کے انتخابی قوانین اس کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔
لیکن فرانس اور امریکہ میں انتخابات کا طریقۂ کار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ فرانس میں صدر اور پارلیمنٹ کا انتخاب الگ الگ تاریخوں کو ہوتا ہے جب کہ امریکہ میں بیک وقت کئی انتخابات ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ میں ملک گیر سطح پر انتخابات کے لیے یکساں قوانین نہیں ہیں۔ ریاست اور کئی مرتبہ شہروں کی حد تک یہ قانون ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
فرانس میں وزارتِ داخلہ الیکشن سے متعلق سامان اور بیلٹ پیپر وغیرہ تقسیم کرتی ہے اور مقامی انتخابی عملے کو معاونت فراہم کرتی ہے۔ فرانس میں ایک مرکزی آئینی کونسل ہے جو انتخابی عمل سے متعلق موصول ہونے والی شکایات کا فیصلہ کرتی ہے۔
فرانس سمیت دنیا کے کئی ممالک میں بہت سے عہدے داروں کا انتخاب براہِ راست ووٹر نہیں کرتے۔ جب کہ امریکہ میں اس کے برعکس صدر ، گورنر، ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے ارکان سے لے کر ریاست اور مقامی سطح پر نمائندوں اور کئی دیگر حکام براہِ راست ووٹر منتخب کرتے ہیں۔ اس طرح کئی اعتبار سے امریکہ کا انتخابی نظام بہت منفرد ہے۔
ڈاک سے ملنے والے بیلٹ اور گنتی کا دورانیہ
ڈاک سے موصول ہونے والے ووٹوں کی وجہ سے بھی نتائج مرتب کرنے کے دورانیے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں کرونا وائرس کی وجہ سے ڈاک کے ذریعے ووٹ دینے کی سہولت کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ہجوم کم رکھنے کے لیے الیکشن کے دن سے قبل ووٹ ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔
ڈاک سے موصول ہونے والے ووٹوں کی جانچ پڑتال کا عمل ہر ریاست میں مختلف ہے اور اس میں کئی مرتبہ بہت وقت بھی لگتا ہے۔
بعض ریاستوں میں بیلٹ پر کیے گئے دستخط کا ووٹنگ رجسٹریشن یا شناختی دستاویزات پر موجود دستخط سے ملنا ضروری ہے۔ جب کہ بعض ریاستوں میں اس کے لیے گواہ یا کسی سرکاری اہل کار کی تصدیق کی شرط ہوتی ہے۔
فلوریڈا اور جارجیا سمیت زیادہ تر ریاستوں میں ڈاک سے موصول ہونے والے ووٹوں کی تصدیق کا عمل الیکشن ڈے سے بہت پہلے شروع ہوجاتا ہے اس لیے نتائج بھی تیزی سے سامنے آتے ہیں۔ لیکن کئی ریاستوں میں صورتِ حال اس سے مختلف ہوتی ہے۔
ریاست پینسلوینیا اور جارجیا میں الیکشن حکام کو الیکشن ڈے سے پہلے پوسٹل بیلٹس کی تصدیق اور گنتی کی اجازت نہیں ہوتی۔ مشی گن میں حکام یہ عمل الیکشن ڈے سے دو روز پہلے سے شروع کرسکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ریاستوں میں الیکشن کی رات جو نتائج سامنے آتے ہیں ان میں اکثر اوقات ڈاک سے ڈالنےجانے والے ووٹ شامل نہیں ہوتے۔
حکام کے مطابق ووٹوں کی گنتی اور نتائج مرتب کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے اور انتخابی عملہ رفتار سے زیادہ نتائج کے درست ہونے پر توجہ دیتا ہے۔
اس تحریر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے۔