پاکستان کے موجودہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت مکمل ہونے میں اب محض دو ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور سب سے زیادہ اہمیت بھی اس سوال کو حاصل ہے کہ ان کے بعد فوج کی کمان کس کے سپرد کی جائے گی اور کیا اس تعیناتی کے بعد سیاسی فضا پر چھائے بے یقینی کے بادل چھٹیں گے یا نہیں؟
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کی وجہ سے چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر تعیناتی کو فوج میں معمول کی ترقی و تقرری کی کارروائی نہیں سمجھا جاتا بلکہ ملک کے سیاسی مستقبل کے کئی سوالوں کے جواب اس عہدے پر ہونے والی تعیناتی کے فیصلے سے جڑے ہوتے ہیں۔
رواں برس پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے عدمِ اعتماد س کے ووٹ سے خاتمے اور اس وقت سے عمران خان کی حکومت کے خلاف جاری تحریک میں اسٹیبلشمںٹ کا سیاسی کردار مسلسل زیرِ بحث آنے کی وجہ سے اس بار آرمی چیف کی تعیناتی کو ماضی کے مقابلے میں قومی منظر نامے پر زیادہ توجہ حاصل ہے۔ بلکہ بعض حلقے ملک کے سیاسی استحکام کو بھی اس فیصلے پر منحصر قرار دیتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہونے کی توقع تو کی جاسکتی ہے۔ البتہ سیاسی تقسیم اس قدر زیادہ ہوچکی ہے کہ سیاسی ماحول میں پائی جانے والی کشیدگی آئندہ انتخابات تک جوں کی توں برقرار رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض مبصرین کے نزدیک اگر سیاسی حالات درست نہ ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ کی نئی ٹیم تمام سیاسی فریقین کو ایک ساتھ بٹھا کر ملک میں استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔
نئے آرمی چیف کے آنے سے سیاسی استحکام آئے گا؟
سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ نئے آنے والے آرمی چیف سیاست میں کسی حد تک ملوث ہوتے ہیں۔ اب تک جو فوج کی حکمت عملی نظر آرہی ہے اس سے بظاہر لگتا ہے کہ فوج خود کو سیاست سے دور رکھے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ سیاسی استحکام کا انحصار فوج کی سیاست سے دوری سے زیادہ اس بات پر ہوگا کہ فوج دو سیاسی حریفوں یعنی پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کو قریب لانے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس وقت سیاست میں سب سے بڑا مسئلہ عام انتخابات کا ہے اور ان کے انعقاد کے لیے دونوں سیاسی فریقین کو ایک دوسرے کے قریب ہونا پڑے گا۔
ان کے بقول، سیاسی استحکام صرف فوج کے سربراہ کی تعیناتی سے جڑا ہوا نہیں ہے بلکہ سیاسی فریقین کے ایک دوسرے کے قریب آنے اور مل کر انتخابات کی طرف جانے پر منحصر ہے۔
تجزیہ کار بریگیڈیر ریٹائرڈ حارث نواز کا خیال ہے کہ اگر اگلے ایک ہفتے کے دوران آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو ملک میں سیاسی استحکام پیداہونے کی امید ہے۔
ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے سےغیریقینی کا خاتمہ ہوگا اور امکان ہے کہ فوج کے نئے سربراہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ بٹھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے آرمی چیف کی یہی کوشش ہوگی کہ سب مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالیں۔ اس کے باوجود بھی اگر کسی نے تماشا لگانا ہے تو لگا لے لیکن اگر ملک میں حالات خراب کیے گئے تو فوج پھر ایکشن میں آئے گی۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے سینئر استاد اور تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر جسپال نے کا کہنا ہےکہ آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ گذشتہ چھ ماہ سے لٹکا ہوا ہے اورپوری قوم اس کی طرف ایک عرصہ سے دیکھ رہی ہے۔اس تعیناتی کے بعد امکان ہے کہ مثبت نتائج آئیں گے اور ملک میں سیاسی استحکام ہوگا۔
سینیارٹی کا اصول لاگو ہوگا؟
ڈاکٹر ظفرجسپال کاکہنا ہے کہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے لیکن آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے۔ان کا آئینی حق ہے کہ وہ اس ذمے داری کے لیے کس کا انتخاب کرتے ہیں۔
حکمران اتحاد کے رہنماؤں کی جانب سے سینیئر ترین لیفٹننٹ جنرل کو بطور آرمی چیف تعینات کرنے کے اشارے سامنے آرہے ہیں۔
اس پر جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کاکہنا تھا کہ موجودہ صورتِ حال میں یہ فارمولہ اچھا ہے کہ سینئر موسٹ کو چیف بنا دیا جائے لیکن یہ اس وجہ سے مستقل پیمانہ نہیں ہوسکتا کہ فوج میں روٹیشن کا ایک اصول ہوتا ہے۔ اس میں کبھی آرمرڈ کور، کبھی انفنٹری اور دیگر کورز کے آفیسر ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح انجینئرز اور میڈیکل کے افسران بھی بعض اوقات سینیارٹی لسٹ میں آگے ہوسکتے ہیں لیکن اگر صرف کورکمانڈ کرنے والے افسران کی سنیارٹی لسٹ بنائی جائے تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیر ریٹائرڈ حارث نواز کا کہنا ہے کہ اس وقت سینیارٹی کے اعتبار سے جنرل عاصم منیر کا نام سامنے آرہا ہے۔ اگرچہ وہ 27 نومبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں لیکن اگر انہیں چند روز قبل ترقی دے دی جاتی ہے تو وہ نئے عہدے پر کام جاری رکھ سکیں گے۔
ان کاکہنا تھا کہ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی پر پاکستان تحریکِ انصاف اعتراض کرسکتی ہے لیکن ایک مرتبہ تعیناتی ہوجاتی ہے تو ان کے بقول، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
حارث نواز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کو اس بارے میں پاکستان میں رہ کر اپنے رفقا سے مشاورت کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے ، انہیں لندن میں پاکستان کے فیصلے نہیں کرنےچاہیئیں۔
سیاست پر کیا اثر پڑے گا؟
آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق یہ چہ مگوئیاں بھی کی جارہی ہیں کہ کسی خاص نام پر پی ٹی آئی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو اعتراض ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا فوج کا نیا سربراہ متنازع ہوسکتا ہے؟ اور ایسی صورتِ حال میں پاکستان کی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی؟ اس بارے میں نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو آرمی چیف کی تعیناتی سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ آپ کسی شہزادے کی زندگی کو دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی رائے دیں لیکن اصل میں اس کی صلاحیتیں تو بادشاہ بننے کے بعد ہی ظاہر ہوں گی۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کہتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ جو بھی آرمی چیف آئے گا وہ پاکستان اور آرمی کا مفاد دیکھے گا۔ وہ کسی کے ساتھ اپنے تعلقات کو اثرانداز نہیں ہونے دے گا۔ مجھے اندازہ ہے کہ فوج میں جس طرح فیصلے کیے جاتے ہیں کہ تمام کورکمانڈرز کانفرنس میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ایک اکثریتی بات پر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ان فیصلوں کا آرمی چیف کی شخصیت پر انحصار ہوتا ہے لیکن یہ اثر بھی زیادہ تر سیکیورٹی معاملات، بھارت یا امریکہ کے ساتھ تعلقات پر پڑتا ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ ان کا کسی سیاسی جماعت کے طرف جھکاؤ ہوگا۔‘‘
’سیاسی استحکام سب سے اہم ہے‘
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیر ریٹائر حارث نواز کی رائے میں ملک کی اقتصادی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اس وقت سیاسی استحکام سب سے زیادہ اہم ہے۔اسٹیبلشمنٹ اس صورتِ حال کو دیکھ رہی ہے کہ ملک میں ایک سیاسی جماعت سڑکوں پر ہے اور اسلام آباد کی طرف آرہی ہے۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ سیاسی مخالفین سے کس طرح معاملہ کرتی ہے۔ لیکن اس وقت حکومت کشیدگی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
ان کے بقول، موجودہ صورتِ حال میں اسٹیبلشمنٹ پیغام دے چکی ہے کہ وہ کسی سیاسی تنازع میں نہیں پڑنا چاہہتی۔اس لیے حکومت ہی کو صورتِ حال کنٹرول کرنی چاہیے لیکن حکومت کے پاس اس کے لیے کوئی پالیسی نظر نہیں آرہی۔
ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مارچ میں الیکشن چاہتی ہے کہ تاکہ اس کے بعد آنے والی حکومت بجٹ بنائے۔ یہ منطقی بات ہے لیکن اس پر پیش رفت کیسے ممکن ہوگی؟ یہ اب تک طے نہیں ہوسکا ہے۔
سیاسی استحکام کے امکانات سے متعلق ڈاکٹر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک بڑا مسئلہ سیاسی تقسیم کا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتِ حال سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ تقسیم آئندہ انتخابات تک برقرار رہے گی۔ لیکن حالات اگر قابو سے باہر ہوئے اور کسی نے ان کو بڑھاوا دیا تو فوج اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔