پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ وہ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
بعض ماہرین اسے عمران خان کا ایک اور 'یو ٹرن' قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ وہ طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات مزید خراب کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
وزیرِ آباد میں لانگ مارچ پر ہونے والی فائرنگ کے بعد زخمی ہونے والے عمران خان کئی روز سے لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک میں مقیم ہیں۔ جہاں وہ ہر روز صحافیوں کے وفود سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر پیچھے ہٹنے کا بیان بھی جمعرات کو صحافیوں کے ایک وفد سے ہونے والی ملاقات کے دوران سامنے آیا۔
خیال رہے کہ کئی ماہ سے جاری اپنی احتجاجی سیاست کے دوران عمران خان کی تقاریر کا محور آرمی چیف کی تعیناتی رہا ہے۔ عمران خان حکمراں اتحاد پر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا چاہتے ہیں جو اُن کے کرپشن کیسز پر پردہ ڈالے۔
عمران خان یہ بھی تجویز دے چکے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی فوری طور پر ہونے والے انتخابات کے بعد بننے والی حکومت کرے۔
سابق وزیرِ اعظم اپنی حکومت ہٹائے جانے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ عمران خان مختلف جلسوں، پریس کانفرنسز اور انٹرویوز میں میر جعفر، میر صادق، ڈرٹی ہیری اور نیوٹرلز کے استعارے استعمال کرتے رہے ہیں۔
اُنہوں نے 28 اکتوبر کو افواجِ پاکستان کے ترجمان اور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کی ایک پریس کانفرنس کے جواب میں کہا تھا کہ "ڈی جی آئی ایس آئی کان کھول کر سن لو، وہ ملکی مفاد میں خاموش ہیں، ورنہ اُن کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔"
'عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہیں'
پاکستان تحریکِ انصاف کے وائس چیئرمین اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ ایک مسلمہ حقیقت ہے، جو ملک کی ضرورت بھی ہے اور عمران خان بھی اس کی اہمیت سے پوری طرح واقف ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریکِ انصاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کام کر چکی ہے اور آئندہ بھی کر سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرحدوں کی جو صورتِ حال ہے اور بلوچستان میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ ایسے میں عمران خان پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں کے کردار کے ہمیشہ معترف رہے ہیں۔
'عمران خان کو کسی نے مشورہ دیا ہے کہ لڑائی طویل نہ کریں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ شاید عمران خان کو احساس ہو گیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی میں شدت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ عمران خان کے دوستوں نے اُنہیں مشورہ دیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی زیادہ طویل نہ کریں۔
اُن کے بقول عمران خان نے حالیہ عرصے میں اسٹیبلشمنٹ پر جو دباؤ بڑھایا، اُنہیں اس میں کوئی زیادہ کامیابی نہیں ملی بلکہ اس سے ملک میں سیاسی انتشار میں اضافہ ہوا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اس وقت عمران خان کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ اداروں پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی کا عمران خان کو فائدہ بھی ہوا ہے اور اُن کی مقبولیت پہلے سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
لیکن مظہر عباس کے بقول جہاں اُنہیں سیاسی فائدہ ہوا ہے تو وہیں اُن کے خلاف نئے محاذ بھی کھل رہے ہیں۔ اُن پر الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ بہت سی چیزیں ہو رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تاحال عمران خان نے اسلام آباد میں داخل ہونے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔
خیال رہے کہ چند دنوں سے توشہ خانہ سے ملنے والی گھڑیوں کی فروخت اور اس کا مبینہ خریدار سامنے آنے کے بعد عمران خان کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم عمران خان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اس معاملے پر قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر رکھا ہے۔
'عمران خان دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنا رہے ہیں'
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان راولپنڈی میں پڑاؤ ڈال کر انتظار کریں گے کہ نئی آنے والی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کیا ہو گی؟ اسی لحاظ سے وہ آئندہ کی حکمتِ عملی بنائیں گے۔
اُن کے بقول راولپنڈی میں پنجاب حکومت کی عمل داری ہے۔ لہذٰا اگر وہاں وہ کارکن جمع ہوتے ہیں تو تصادم کا خطرہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر اُنہوں نے اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کی تو رانا ثناء اللہ پہلے ہی سخت ایکشن کا عندیہ دے چکے ہیں۔ لہذٰا عمران خان جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کریں گے۔
عمران خان کے بیانات میں تضاد کے سوال پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ "آپ اسے پیچھے ہٹنا نہیں کہہ سکتے بلکہ عمران خان کا مؤقف ہے کہ آرمی چیف کی دوڑ میں جو بھی چار سے پانچ افسران شامل ہیں وہ سب قابل افسران ہیں اور انہیں ان میں سے کسی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔"
شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ عمران خان کو صرف یہ اعتراض تھا کہ ملک سے باہر بیٹھے مفرور اور سزا یافتہ شخص سے اس اہم تعیناتی پر مشاورت کرنا ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لندن میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے کئی ملاقاتیں بھی کی ہیں جس میں اطلاعات کے مطابق آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔
مظہر عباس کے بقول عمران خان اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ حالات کو دیکھتے ہوئے کچھ روز بعد عمران خان پھر جارحانہ پالیسی اختیار کر لیں۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ اُنہیں نہیں لگتا کہ عمران خان کی کسی سے بیک ڈور کوئی بات چل رہی ہے۔ اُن کے بقول سابق وزیرِ اعظم نے اپنی پالیسی کچھ نرم کی ہے اور وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ نیا آرمی چیف کون آتا ہے۔
اُن کے بقول عمران خان نہیں چاہتے کہ وہ اس معاملے پر جارحانہ مؤقف برقرار رکھتے ہوئے نئی اسٹیبلشمنٹ سے دُور ہو جائیں۔ کیوں کہ اُن کے سخت بیانات اور آئی ایس آئی کے حاضر سروس میجر جنرل کا نام لے کر تنقید کے باعث یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر عمران خان کو جو مبینہ حمایت حاصل تھی وہ بھی اب کم ہو رہی ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان نے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی اپنائی ہے اور کیوں کہ آرمی چیف کی تعیناتی میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ اسی لیے عمران خان بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف زیادہ بات کرنے سےگریزاں ہیں۔
'امریکہ کے حوالے سے عمران خان کے مؤقف میں تبدیلی نہیں آئی'
امریکہ کے حوالے سے اپنے جارحانہ مؤقف سے مبینہ طور پر پیچھے ہٹنے کے سوال پر شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ اس معاملے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے۔
شاہ محمود قریشی کے بقول عمران خان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ملک کے اندرونی معاملات میں کسی دوسرے ملک کو دخل اندازی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ لہذٰا عمران خان اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ لیکن وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ پاکستان تحریکِ انصاف اور امریکہ کے تعلقات میں رکاوٹ نہ بنے۔
شاہ محمود قریشی کے بقول پی ٹی آئی چین، روس، یورپی یونین اور مسلم ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہاں ہے اور امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات رکھنا چاہتی ہے۔
اُن کے بقول امریکہ ایک عالمی طاقت اور معاشی طور پر مضبوط ملک ہے، لہذٰا پاکستان کے مفادات کی خاطر عمران خان اس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ عمران خان نے چند روز قبل برطانوی اخبار 'فنانشل ٹائمز' کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ اُن کی حکومت ہٹانے میں اُن کے بقول امریکہ کے کردار کا معاملہ وہ پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔