بھارت کی مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کے قتل کے معاملے میں تمام سزایافتہ قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کو چیلنج کردیا ہے اور عدالت سے اس پر نظرِ ثانی کی اپیل کی ہے۔
سپریم کورٹ نے 11 نومبر کو ایک اہم فیصلے میں ایک خاتون نلنی مروگن سمیت تمام چھ مجرموں کو قبل از وقت رہا کر دیا تھا جس پر کانگریس پارٹی سمیت مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی تھی۔
حکومت نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ یہ معاملہ ملک کے ایک سابق وزیر اعظم کے قتل کا تھا لیکن اس پر حکومت کا مؤقف نہیں سنا گیا۔ حکومت نے اس معاملے میں خود کو فریق نہ بنائے جانے پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ 21 مئی 1991 کو تمل ناڈو کے سری پیرومبدور میں پیش آنے والے اس واقعے میں حکومت کے بھی متعدد اعلیٰ عہدے دار اور اہلکار متاثر ہوئے تھے۔
راجیو گاندھی کو 21 مئی 1991 کو تمل ناڈو کے سری پیرومبدور میں ایک انتخابی ریلی میں سری لنکا کی عسکری تنظیم ’ایل ٹی ٹی ای‘ کے ایک خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ خودکش بمبار خاتون کا نام دھنو تھا جس نے راجیو گاندھی کو ہار پہناتے ہوئے خود کو بم سے اڑا دیا تھا۔ اس وقت راجیو گاندھی کی عمر 46 برس تھی۔اس واقعے کے بعد حملے کی منصوبہ بندی کرنے اور اس میں معاونت کرنے والے افراد کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
حکومت کے مطابق چھ مجرموں میں سے چار سری لنکا کے شہری ہیں۔ وہ ملک کے سابق وزیر اعظم کو قتل کرنے کے بہیمانہ جرم کے مرتکب ہوئے تھے۔ انہیں دہشت گرد ہونے کی وجہ سے سزا سنائی گئی تھی۔ اس لیے انہیں معافی دینے سےبین الاقوامی سطح پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معاملہ ملک کی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کے دائرے میں آتا ہے۔
مرکزی حکومت کا استدلال ہے کہ مناسب سماعت کے بغیر مجرموں کو رہا کر دینا فطری انصاف کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے مطابق ایسے حساس معاملے میں مرکزی حکومت کی مدد انتہائی اہمیت کی حامل تھی کیوں کہ اس معاملے کا امنِ عامہ اور نظام انصاف سے گہرا تعلق ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تمل ناڈو کے محکمۂ جیل کو ای میل کے ذریعے فیصلے سے مطلع کیا گیا اور جیل انتظامیہ نے مجرموں کو رہا کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 11 نومبر کو فیصلہ سنایا اور 12 نومبر کو ایک قیدی رابرٹ پیاس اور اس کے برادر نسبتی جے کمار کو چنئی کی جیل سے شام سوا پانچ بجے رہا کیا گیا۔ جب کہ مروگن اور سناتھن شام پانچ بجے ویلور جیل سے رہا ہوئے۔
نلنی اس وقت پرول پر جیل سے باہر تھیں۔ انہوں نے 12 نومبر کو ویلور کے نزدیک کاٹپڈی پولیس اسٹیشن میں حاضر ہوکر ایک لیجر پر دستخط کیے۔ روی چندرن کو مدورائی سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا۔
چوں کہ رابٹر پیاس، جے کمار، سناتھن اور نلنی کے شوہر مروگن عرف سری ہرن سری لنکا کے شہری ہیں اس لیے ان کو تروچری کے کوٹاپٹو میں واقع غیر ملکیوں کے خصوصی کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ باقی قیدی جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ عدالت نے ایک اور قیدی اے جی پیراری والن کو مئی میں ہی رہا کر دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں پیراری والن کا ذکر کیا ہے جنہیں عدالت نے دستور کی دفعہ 142 کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے رواں سال مئی میں رہا کر دیا تھا۔ اس مقدمے میں سات مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس بی وی ناگ رتن کے بینچ نے فیصلے میں کہا کہ اے جی پیراری والن کے معاملے میں مئی میں دیے گئے عدالتی فیصلے کا اطلاق یہاں بھی ہوتا ہے۔ پیراری والن نے جیل میں 30 برس گزارے تھے۔
عدالت نے کہا کہ جیل میں سزا یافتہ افراد نے اطمینان بخش طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا، تعلیم حاصل کرکے ڈگری پائی، ایوارڈز پائے، کتابیں لکھیں اور سماجی خدمات میں بھی حصہ لیا۔
سپریم کورٹ نے راجیو گاندھی کی بیوہ اور کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کی مداخلت پر 2000 میں نلنی کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلا تھا۔ سونیا گاندھی کی بیٹی پرینکا گاندھی نے 2008 میں ویلور جیل میں نلنی سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ وہ نفرت اور انتقام پر یقینی نہیں رکھتیں۔
تاہم کانگریس پارٹی نے اس فیصلے کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ وہ سونیا گاندھی سے متفق نہیں ہیں جنہوں نے ان کی رہائی کی اپیل کی تھی۔ کانگریس نے اس فیصلے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا تھا۔
’یہ صرف قتل نہیں تھا‘
کانگریس کے ترجمان میم افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ راجیو گاندھی کا قتل محض ایک قتل نہیں تھا بلکہ ایک سابق وزیرِ اعظم اور پورے ملک کے خلاف دہشت گردی تھی۔ لہٰذا ان کے قاتلوں کو رہا کرنا انصاف نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ سونیا گاندھی اور پرینکا گاندھی نے ایک خاتون مجرم نلنی کے ساتھ رحم دلی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی ان تمام مجرموں کو بھی رہا کر دیا جائے جنہوں نے راجیو گاندھی کے قتل کی سازش تیار کی اور اسے عملی جامہ پہنایا۔ کانگریس اس فیصلے کے خلاف قانونی پہلوؤں کاجائزہ لے رہی ہے۔
ان کے بقول عدالت نے اس فیصلے میں ملک کی خود مختاری کو پیشِ نظر نہیں رکھا۔ راجیو گاندھی کا قتل بھارت کی سالمیت پر حملہ تھا۔ یہ بہت افسوس ناک ہے کہ سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ سناتے وقت اس معاملے پر ملک کے جذبات کا کوئی خیال نہیں رکھا۔
پارٹی کے سینئر رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سونیا گاندھی اپنے خیالات رکھنے کے لیے آزاد ہیں۔ لیکن پارٹی ، احترام کے ساتھ، ان کے خیالات سے متفق نہیں ہے۔ پارٹی نے اس معاملے میں اپنا مؤقف برسوں قبل واضح کر دیا تھا۔ راجیو گاندھی کا قتل کسی دوسرے جرم جیسا نہیں تھا۔ یہ ایک قومی معاملہ ہے کوئی مقامی قتل نہیں۔
قبل ازیں تمل ناڈو کے حکام کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت سری لنکا کے تمام شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیج دے گی۔ اس سلسلے میں قانونی کارروائی بھی شروع کر دی گئی تھی۔ لیکن اب جب کہ مرکزی حکومت نے اس فیصلے کو چیلنج کیا ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی ان رہاشدہ قیدیوں کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ان کے مطابق اگر سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی تو ایک بار پھر رہا شدہ قیدیوں کا مستقبل غیر یقینی ہو جائے گا۔