پاکستان میں گزشتہ کئی روز سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔لیکن جیسے جیسے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے کی تاریخ قریب آ رہی ہے ، نئے آرمی چیف کے حوالے سے اندازے اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ زور پکڑ رہا ہے۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ ملکی سیاست کا بھی محور بنا ہوا ہے۔ ایک جانب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان اس معاملے پر حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں تو وہیں حکومت کا اصرار ہے کہ اس معاملے کو آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔
پاکستانی فوج کا کوئی بھی لیفٹننٹ جنرل جس نے ایک سال کور کمان کی ہو وہ اس تعیناتی کا اہل ہوتا ہے۔
موجودہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی مدتِ ملازمت کا دوسرا دور 29 نومبر کو مکمل ہو رہا اور اب نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے مراحل شروع ہونے جارہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس تقرری کے لیے موجود طریقہ کار پر عمل درآمد اب تک ہوجانا چاہیے۔ لیکن حکومت کے مطابق اب تک سمری موصول نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وزیرِاعظم نے وزارت دفاع کے ذریعے جی ایچ کیو کو خط لکھا ہے جس میں ترقی کے اہل افسران کی فہرست اور ان کے پروفائل مانگے گئے ہیں۔
سمری ملنے کے بعد وزیرِِاعظم کا اختیار ہے کہ وہ ان میں سے کوئی سے دو افسران کو آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی منتخب کرکے صدر کو ان ناموں کی سفارش کریں۔
اگرچہ فوج کے ترجمان ادارے کی طرف سے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے الوداعی دوروں کی تصاویر، خبریں اور فوٹیج جاری کی جارہی ہیں۔لیکن اس کے باوجود آرمی چیف کو مزید توسیع ملے گی یا نہیں؟ یہ سوال اب بھی دہرایا جارہا ہے۔
معاملہ سیاسی حلقوں میں موضوعِ بحث
اس اہم عہدے پر تعیناتی کے لیے اگرچہ زیادہ وقت درکار نہیں لیکن اب تک حکومت کی طرف سے اس معاملہ پر وجوہات بتائے بغیر مختلف تاریخیں دی جارہی ہیں۔ وزیردفاع خواجہ آصف کئی مرتبہ اس عمل کو شروع ہونے اور مکمل ہونے کے بارے میں تاریخیں دے چکے لیکن اب تک اس پر عمل نہیں ہوا۔
اس تقرری کے لیے آئین میں درج طریقۂ کار کے مطابق وزیرِاعظم کی سفارش پر صدر مملکت آرمی چیف کی تقرری کرتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں فوج کا صدر دفتر یعنی جنرل ہیڈ کوارٹرز ( جی ایچ کیو) وزارتِ دفاع کو چار سے پانچ سینئر فوجی افسران کے نام بھجواتا ہے اور ان افسران کی مکمل پیشہ ورانہ پروفائل بھی منسلک ہوتی ہے۔
وزارتِ دفاع یہ سمری وزریراعظم ہاؤس روانہ کرتی اور پھر وزیرِِاعظم پاکستان ان بھیجے گئے ناموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر وزیرِاعظم ان ناموں سے مطمئن نہ ہوں تو وہ وزارتِ دفاع کے ذریعے ہی مزید نام طلب کر سکتے ہیں جنہیں اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
وزیرِاعظم کی منظوری کے بعد ان ناموں کا اعلان کیا جاتا ہے اور آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کے اگلے روز پاکستان کی فوج کی کمان ایک چیف سے دوسرے آرمی چیف کو منتقل ہو جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق عام طور پر یہ سمری تین سے چار روز پہلے موصول ہوجاتی ہے۔ حکومت اس سے پہلے ہی اپنا ہوم ورک مکمل کرلیتی ہے اور اس کے بعد سمری آنے پر رسمی کارروائی کرکے نام کا اعلان کردیا جاتا ہے۔
اس بارے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سینئر قائدین بھی تشویش کا اظہار کررہے ہیں اور وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بیان دیا کہ اگر سمری موصول نہ بھی ہو تو وزیراعظم اعلان کرسکتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ آرمی چیف کا تقرر عام طور پر آخری دو یا تین دن میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ فوج کا موجودہ سربراہ آخری وقت تک اپنی اتھارٹی برقرار رکھے۔
فوج کے سربراہ کے تقرر کی سمری کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سمری کا اس وقت آنا ضروری ہے۔ خواہشات اور پسند نا پسند سب کی ہوتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ وزیرِ اعظم شہباز شریف ہی کریں گے۔
اپوزیشن کی طرف سے بھی اس معاملے پر ایسے بیانات سامنے آ رہے ہیں کہ حکومت اورفوج کے درمیان شاید اس معاملہ پر کوئی اختلاف ہے۔ سابق وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کےبیان سےواضح ہےسب اچھا نہیں سب ایک پیچ پر نہیں ہیں۔
حکومتِ وقت آرمی چیف کی تعیناتی میں ہر پہلو پر غور کرتی ہے ، اس وقت اس دوڑ میں فوج کے کون کون سے سینئر افسران شامل ہیں۔ آئیے جانتے ہیں۔
اس وقت پاکستانی فوج کے 30 لیفٹننٹ جنرلز میں سے چھ لیفٹننٹ جنرلز ایسے ہیں جو آرمی چیف کے عہدے کے لیے فوج کے مقرر کردہ معیار پر پورا اُترتے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر
سن 2018 میں لیفٹننٹ جنرل پروموٹ ہونے کے بعد فرنٹیئر فورس رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے عاصم منیر کی 27 نومبر 2022 کو مدت ملازمت مکمل ہو گی۔ لہذا اگر آرمی چیف چاہیں تو ان کا نام آئندہ آرمی چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیف آف ا سٹاف کے لیے بھجوایا جاسکتا ہے۔
جنرل عاصم منیر خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس کے بھی سربراہ رہ چکے ہیں۔ گوجرانوالہ کور کے کمانڈر رہنے کے بعد وہ اس وقت کوارٹر ماسڑ جنرل کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر کے حوالے سے یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ اُنہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی وزیرِ اعلٰی پنجاب عثمان بزدار اور عمران خان کی اہلیہ کی ایما پر مبینہ کرپشن کی رپورٹس عمران خان تک پہنچائیں۔
اطلاعات کے مطابق عمران خان نے اس پر ناپسندیگی کا اظہار کرتے ہوئے اُنہیں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی۔ جنرل عاصم منیر کے بعد لیفٹنٹٹ جنرل فیض حمید آئی ایس آئی کے نئے سربراہ بنے تھے۔
لیفٹننٹ جنرل عاصم منیر نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے اعزازی شمشیربھی حاصل کی۔
لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا
سندھ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ملٹری آپریشنز کے عہدے پر کام کرتے رہے ۔اس کے علاوہ چیف آف جنرل سٹاف کے علاوہ جنرل آفیسر کمانڈنگ ( جی او سی) اوکاڑہ کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے اور اس وقت وہ اولپنڈی کور کے کمانڈر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل اظہر عباس
پاکستان آرمی کے موجودہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹننٹ جنرل اظہر عباس روالپنڈی کور کے کمانڈر تھے۔ لیفٹننٹ جنرل اظہر عباس سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پرسنل اسٹاف آفیسر کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں ۔
لیفٹننٹ جنرل نعمان محمود
بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے لیفٹننٹ جنرل نعمان محمود اس وقت بطور سربراہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کام کررہے ہیں۔
تھری سٹار جنرل بننے کے بعد انہیں پہلے آئی جی کمیونی کمیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پھر کورکمانڈر پشاور تعینات کیا گیا۔
لیفٹننٹ جنرل فیض حمید
اس فہرست میں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید بھی شامل ہیں جو ماضی میں بطور آئی ایس آئی چیف بعض وجوہات کے سبب خبروں میں رہے۔
بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے فیض حمید جو پہلے کور کمانڈر پشاور تھے حال ہی میں تبادلے کے بعد بہاولپور کور کو کمانڈ کر رہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے بطور آئی ایس آئی چیف سیاست میں مبینہ کردار پر سوال اٹھاتی رہی ہیں۔
لیفٹننٹ جنرل محمد عامر
چار سینئر موسٹ لیفٹننٹ جنرلز میں شامل نہ ہونے کے باوجود جس افسر کا نام اس فہرست میں شامل ہے وہ لیفٹننٹ جنرل محمد عامر ہیں جو اس وقت کورکمانڈر گوجرانوالہ کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔
محمد عامر فوج کی آرٹلری رجمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور ماضی میں وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے ملٹری سیکریٹری کے طور پر بھی کام کرتے رہے ہیں۔