چین کے دارالحکومت بیجنگ سمیت کئی شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے صدر شی جن پنگ سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
اتوار کو کرونا پابندیوں کے خلاف مظاہرین نے بیجنگ کی سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ اس موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی لیکن پولیس نے بزور طاقت مظاہرین کو منتشر کر دیا۔
واقعے کے چند گھنٹوں بعد مظاہرین ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آ گئے اور اس مرتبہ صرف بیجنگ ہی نہیں لگ بھگ سات شہروں میں مظاہرے ہوئے جب کہ درجنوں یونیورسٹی کیمپسوں میں بھی کرونا پابندیوں کے خلاف مظاہرین نے نعرے بازی کی۔
بیجنگ میں احتجاج کرنے والے شہریوں نے صدر شی جن پنگ سے اقتدار سے الگ ہونے کے مطالبات کیے۔
چین سے متعلق یہ تاثر عام ہے کہ وہاں اختلافِ رائے کے عوامی اظہار کو دبایا جاتا ہے جہاں بڑے پیمانے پر مظاہرے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن دہائیوں بعد ملک کے سب سے طاقت ور رہنما اور موجودہ صدر شی جن پنگ کے خلاف احتجاج غیر معمولی واقعہ ہے۔
یہ مظاہرے ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب چین میں کرونا وائرس کے کیسیز ایک مرتبہ پھر تیزی سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ اسی اثنا میں 25 نومبر کو سنکیانگ کی ایک عمارت میں آگ لگنے کے واقعے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
متاثرہ عمارت میں اموات سے متعلق الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ یہ اموات عمارت میں جزوی طور پر عائد کردہ کرونا پابندیوں کی وجہ سے ہوئی ہیں کیوں کہ وہاں فوری طور پر ریسکیو آپریشن شروع نہیں کیا جا سکے۔ تاہم حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
'لوگ اب ممنوع سمجھے جانے والے موضوعات پر بات کر رہے ہیں'
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی جانب سے جارہ کردہ ایک ویڈیو میں مظاہرین کو صدر شی جنگ پنگ اور کمیونسٹ پارٹی کے استعفیٰ دینے کے مطالبات کو واضح طور پر سنا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ صدر شی کو ماؤزے تنگ کے بعد چین کے مقبول ترین رہنما کی حیثیت حاصل ہے جن کا نام حال ہی میں تیسری مرتبہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے لیے سامنے آیا تھا۔
چین کے بعض رہنماؤں کا خیال ہے کہ صدر شی کو تاحیات ملک کا صدر رہنا چاہیے۔
مظاہرے میں شریک ایک نوجوان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین میں احتجاج کے باعث بننے والی فضا لوگوں کو ملک میں ان موضوعات پر بات کرنے کے لیے اکسا رہی ہے جس کے بارے میں بات کرنا ممنوع سمجھا جاتا ہے۔
ایک شخص نے کہا کہ " ہر کوئی سمجھتا ہے کہ چین کے لوگ گھروں سے باہر نکلنے اور احتجاج کرنے سے خوف زدہ ہوتے ہیں اور ان میں احتجاج کا حوصلہ ہی نہیں۔"
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس شخص کا مزید کہنا تھا کہ "میں پہلی مرتبہ احتجاج میں شریک ہوا تھا اور میرے بھی وہی جذبات تھے لیکن جب میں مظاہرے میں شریک ہوا تو وہاں موجود ہر شخص کو بہادر پایا۔"
مظاہرے میں شریک زاؤ نامی ایک شخص نے بتایا کہ ان کے ایک ساتھی کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا اور دو پر مرچوں والا اسپرے بھی کیا۔
زاؤ کے بقو ل مظاہرین مختلف نعرے لگا رہے تھے اور ایک نعرہ تو یہ تھا کہ ہم کرونا کا پی سی آر ٹیسٹ نہیں بلکہ آزادی چاہتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر دستیاب ویڈیوز میں دیکھا گیا کہ مظاہرین نے "آرمچی سے لاک ڈاؤن ختم کیا جائے،سنکیانگ سے لاک ڈاؤن ختم کیا جائے، پورے چین سے لاک ڈاؤن ختم کیا جائے" کے نعرے لگائے۔
چین میں حالیہ دنوں کے دوران ریکارڈ کرونا کیسز رپورٹ کیے گئے جب کہ اتوار کو پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران لگ بھگ 40 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
چین کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے 'زیرو ٹالیرنس' پالیسی پر عمل پیرا ہے جب کہ دنیا کا بیشتر حصہ عالمی وبا کے ساتھ رہنے کے لیے کوشاں ہے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔