دنیا بھر میں ایچ آئی وی یا ایڈز کے کیسز میں ہر سال بتدریج کمی ہو رہی ہے لیکن پاکستان میں اس مرض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس پر ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ برس دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے تقریبا 15 لاکھ نئے کیسز سامنے آئے تھے البتہ 2010 سے اب تک کے عرصے کے دوران نئے کیسز میں 32 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ پاکستان میں اسی عرصے کے دوران نئے آنے والے کیسز میں 84 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ایچ آئی وی سے متعلق پروگرام ی'یو این ایڈز' کے مطابق دنیا بھر میں ایچ آئی وی کے پھیلنے کی بلند ترین سطح 1996 میں تھی جب اس کے کیسز میں 54 فی صد اضافہ ہوا تھا۔ اس برس 32 لاکھ افراد ایڈز سے متاثر ہوئے تھے۔
یو این ایڈز کے اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ 2010 کے مقابلے میں 2021 میں ایچ آئی وی وائرس کے پھیلنے میں 32 فی صد کمی آئی۔ 2010 میں سامنے آنے والے کیسز کی تعداد لگ بھگ 25 لاکھ تھی جب کہ 2021 میں 15 لاکھ کیسز کا اندراج ہوا۔
اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں ایچ آئی وی ایڈز اور اس سے متعلق امراض سے دنیا بھر میں لگ بھگ ساڑھے چھ لاکھ اموات ہوئیں۔ 2004 میں اموات کی تعداد 20 لاکھ کے قریب تھی۔
پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کنٹرول پروگرام سے وابستہ حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں پاکستان میں کیسز سامنے آنے کی شرح میں لگ بھگ 84 فی صد اضافہ ہوا۔
ایچ آئی وی کی روک تھام سے متعلق ملک بھر میں 50 سے زائد علاج کے مراکزکام کر رہے ہیں جہاں مریض کی اسکرینگ، طبی معالجہ اور کونسلنگ کے ساتھ ساتھ مریض کو مفت ادویات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار پر مبنی ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں لگ بھگ دو لاکھ 40 ہزار ایچ آئی وی کے کیسز ہیں، جن میں 54 ہزار مریض ٹریٹمنٹ سینٹرز تک پہنچ چکے ہیں جب کہ 33 ہزار باقاعدگی سے ادویات لے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ملک محمد عمیر، نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام میں بطور ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ اسپشلسٹ کام کرتے ہیں۔ ان کے بقول مجموعی طور پر عالمی برادری کی نسبت پاکستان میں ایچ آئی وی مرض تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عمیر نے بتایا کہ جس رفتارکے ساتھ دنیا نے اس بیماری کی روک تھام کے سلسلے میں کام کیا ہےں اس طرح کی کوشش کی پاکستان میں بھی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عمیر کے خیال میں پاکستان میں ایڈز کے مرض کی منتقلی منشیات کے عادی افرادکے ذریعے ہی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ استعمال شدہ سرنج، بلڈ ٹرانسفیوژن اور نشہ آور مواد کی آسانی سے فراہمی بھی ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا ذریعہ بنی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں آگہی اور شعور بھی بیدار ہو رہا ہے اور اب عام لوگ بھی حجام سے نئے بلیڈ اور میڈیکل سینٹرز سے نئی سرنج کا اصرار کرتے ہیں۔
عبداللہ خان (فرضی نام) کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے ہے۔ وہ گزشتہ تین برس سے اہلیہ کے ہمراہ باقاعدگی سے پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس اسپتال سے ایچ آئی وی کی ادویات لینے آتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عبداللہ نے بتایا کہ انہیں شبہ ہے کہ انہیں یہ بیماری بیرونِ ملک ملازمت کے دوران لگی۔ تاہم چند سال قبل جب وہ اپنی اہلیہ کو علاج کے سلسلے میں اسپتال لے کر آئے تو وہاں پر دیگر ٹیسٹس کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کا ٹیسٹ بھی کیا گیا۔ جہاں ان کی اس بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس کے بعد ان کی بڑی بیٹی کی ایچ آئی وی رپورٹ بھی مثبت آئی۔
عبداللہ کے مطابق طویل غور و فکر کے بعد انہوں نے اپنی بیماری گھر والوں سے نہ چھپانے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح اہلِ خانہ نے بھی بھرپور ساتھ دیا کیوں کہ انہوں نے اپنے گھر والوں کو قائل کر لیا تھا کہ انہیں یہ بیماری غیر ازدواجی جنسی تعلقات کی وجہ سے قطعاََ نہیں لگی۔
انہیں شبہ ہے کہ جب انہیں ایک مرتبہ دانت میں تکلیف ہوئی تھی اور وہ نکلوایا تو شاید اس حوالے سے استعمال ہونے والے اوزار صاف نہیں تھے جس سے وہ اس مرض میں مبتلا ہو گئے۔
عبداللہ مزید کہتے ہیں کہ وہ بیماری کا ذکر دیگر افراد یہاں تک کہ اپنے قریبی دوستوں سے بھی نہیں کرتے کیوں کہ معاشرے میں اب بھی ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کو شک و شبہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے اب ان کا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزرتا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی طریقے سے ان کی بیماری کا علم کسی اور کو ہو۔
پاکستان میں ایچ آئی وی سے متعلق سنسنی خیز خبریں اپریل 2019 میں اس وقت سامنے آئی تھیں جب صوبۂ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو میں کثیر تعداد میں چھوٹے بچوں میں اس کی تشخیص ہونے لگی تھی۔ ان میں سے بیشتر بچوں کے والدین ایچ آئی وی نیگٹو پائے گئے تھے۔
اس وقت چار سے چھ ہفتوں کے دوران ایک ہزار سے زائد بچوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی۔ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں کیسز سامنے آنے کے بعد حکومت نے پورے علاقے کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا تھا۔
محکمۂ صحت سندھ کے مطابق گزشتہ تین برس کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی ہے اور ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کے لیے مختلف علاقوں میں ٹریٹمنٹ سینٹرز قائم ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کی کوشش اپنی جگہ لیکن اب بھی معاشرے کے بہت سارے افراد خود ایچ آئی وی سے متعلق اسکریننگ کرانے سے کتراتے ہیں۔
رفیع اللہ( فرضی نام) کا تعلق خیبر پختونخوا کے سب سے بڑے شہر پشاور سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب سے ان کی بیماری کا ان کے حلقہ احباب میں پتا چلا ہے تو وہ ان کے گلاس میں پانی تک نہیں پیتے۔ ان سے دور بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں جو برملا نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ معاشرے میں اب بھی ایچ آئی وی کے بارے میں یہی غلط فہمی ہے کہ یہ مرض صرف ناجائز جنسی تعلقات کی بنا پر لگتا یا پھیلتا ہے۔
ڈاکٹر عمیر ایچ آئی وی کے حوالے سے منفی رویوں کی موجودگی سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں کرونا وبا کے دوران جب کوئی مسجد میں کھانسی اور نزلہ کے ساتھ جاتا تھا تو لوگ اسے پسند نہیں کرتے تھے کیوں کہ اب تک لوگوں میں وائرس کا خوف ہے۔
ان کے مطابق جیسے ایک زمانے میں ٹی بی کا اسٹگما تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو گیا۔ اسی طرح جب دو سال پہلے کرونا آیا تھا تو سب کے لیے کھانسی اور نزلہ بہت بڑا اسٹگما تھا۔ آہستہ آہستہ شعور آیا اور وہ بھی ختم ہو گیا۔
ڈاکٹر عمیر کہتے ہیں کہ اسی طرح 1980 کے عشرے میں ایچ آئی وی کے بارے میں یہ کہا جاتا تھا کہ یہ لا علاج مرض ہے جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے۔ ایچ آئی وی 100 فی صد قابلِ علاج مرض ہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی اس وقت سرنج کے ذریعے نشہ کرنے والے افراد کے ذریعے تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے بعد بلڈ ٹرانسفیوژن، ٹرانس جینڈر اور سیکس ورکرز ہیں۔
ڈاکٹر عمیر کا مزید کہنا ہے کہ جیسے بلڈ پریشر یا شوگر ہے۔ یہ امراض جیسے ہی کسی انسان میں تشخیص ہو جائیں تو ساری زندگی کے لیے ادویات لینا پڑتی ہیں۔ بالکل اسی طرح ایچ آئی وی کے متاثرہ مریض کو بھی کرنا پڑتا ہے۔
ان کے بقول روزانہ ایک گولی کھانے کے بعد 90 دن کے اندر مرض کی دوسرے انسان میں منتقلی کی سکت ختم ہو جاتی ہے اور مریض بالکل نارمل زندگی گزارنا شرو ع کر دیتاہے۔
ان کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی کی دوائیاں مفت، بہتر، علاج اور تشخیص میسر ہے۔
ڈاکٹر عمیر کہتے ہیں ایچ آئی وی کی بیماری پر قابو پانے کے لیے سب سے پہلے اپنا رویہ تبدیل کرنا ہو گا۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ اسکریننگ کرنا ہو گی اور ایچ آئی وی کو ایک مرض تسلیم کرنا پڑے گا کیوں کہ اسی طرح اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔