رسائی کے لنکس

افغانستان سے سرحد پار دہشت گردی سے علاقائی امن کو خطرہ ہے، پاکستان


پاکستان نے جمعرات کو خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے سرحد پار ہونے والی دہشت گردی علاقائی امن کے لیے پریشان کن اور خطرناک ہے اور پڑوسی ملک کے حکمران طالبان سے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنے وعدوں کا احترام کریں۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے یہ انتباہ پاکستان میں مہلک دہشت گرد حملوں کی ایک نئی لہر کے دوران جاری کیا جس میں بہت سی جانیں جا چکی ہیں، ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کے اہل کار تھے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نے، جسے پاکستانی طالبان کے نام سے جانا جاتا ہے، زیادہ تر پرتشددکارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ داری کا دعویٰ کیا ہے۔ اس گروپ کے رہنماؤں اور کمانڈروں نے، جو کہ افغان طالبان کی ذیلی شاخ اور اتحادی ہیں، زیادہ تر افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔

رانا ثناء اللہ نے اسلام آباد میں رپورٹروں کو بتایا کہ اگر ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کی ذمہ داری قبول کر رہی ہے، تو یہ افغانستان کی حکومت کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔"

طالبان نے دنیا کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اور انہیں اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔"

دہشت گردی سے نمٹنے کا حل صرف فوجی آپریشن ہے، تجزیہ کار
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:52 0:00

افغان طالبان اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی یا کسی دوسرے گروپ کو سرحد پار دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ وہ ایسے جرائم کے مرتکب پائے جانے والے کسی بھی شخص کے خلاف غداری کامقدمہ چلائیں گے۔

رانا ثناء اللہ نے یہ انتباہ بلوچستان میں پولیو کے قطرے پلانے والے طبی کارکنوں کی حفاظت کے لیے جانے والے پولیس اہل کاروں کے ٹرک پر ٹی ٹی پی کی جانب سے خودکش بم حملے کی ذمہ داری کا دعوی کرنے کے ایک دن بعد جاری کیا۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے دھماکے میں کم از کم چار افراد ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر پولیس اہل کار تھے۔

ٹی ٹی پی کو امریکہ اور اقوام متحدہ نے عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا ہے ۔ اس نے پاکستان میں سینکڑوں خودکش حملے اور دیگر دہشت گرد حملے کیے ہیں، جن میں 2007 سے لے کر اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس گروپ کا جنم افغان سرحد کے ساتھ غیر مستحکم اضلاع میں ہوا۔

پاکستانی حکام اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف برسوں سے فوجی کارروائیوں کو جاری رکھا، جس کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے ارکان کو افغانستان فرار ہونے اور وہاں پناہ گاہیں قائم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن اگست 2021 میں طالبان کی کابل میں اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کے ارکان کے حوصلوں کو بڑھا دیا، اور سرحد کی دوسری جانب سے انہیں کارروائیوں کے لیے زیادہ آزادی حاصل ہوگئی۔

رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ پاکستانی طالبان سے منسلک 7000 جنگجو اور ان کے خاندان اس وقت افغان سرزمین پر پناہ لیے ہوئے ہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ پاکستانی قوانین کی تعمیل میں اپنے ہتھیار حوالے کرنے پر رضامند ہوتے ہیں تو حکومت انہیں واپسی میں سہولت دینے کی با ت چیت کے لیے تیار ہے۔

بدھ کے روز ٹی ٹی پی نے کہا کہ وہ حکومت کے ساتھ یک طرفہ "جنگ بندی" کو ختم کر رہی ہے اور گروپ کے خلاف حکومت کی فوجی کارروائیوں کے جواب میں ان کا گروپ پاکستان بھر میں حملے دوبارہ شروع کر رہا ہے۔

پاکستانی حکام نے ان دعوؤں کو بہانےبازی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیااور کہا کہ یہ کارروائیاں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک میں دوبارہ جمع ہونے یا دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کے لیے شروع کی گئی تھیں۔

یہ عارضی جنگ بندی پاکستان اور ٹی ٹی پی کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے کئی ادوار کے بعد ہو سکی تھی جس کے لیے افغانستان کی طالبان حکومت نے اہتمام اور میزبانی کی تھی۔

(ایاز گل۔ وی او اے نیوز)

XS
SM
MD
LG