جنوبی ایشیا کے دیگر علاقوں کی طرح بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں بھی سیاسی جماعتوں کی قیادت چند مخصوص خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔گزشتہ ایک ماہ کے دوران کشمیر میں تین بڑی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور پیپلزکانفرنس کے داخلی انتخابات ہوئے اور تینوں جماعتوں میں برسوں سے صدارتی عہدے پر براجمان افراد ایک مرتبہ پھر بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔
یہ تینوں افراد ایسے مخصوص خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی جموں کشمیر کی مرکزی دھارے کی سیاست پر کئی دہائیوں سے اجارہ داری رہی ہے۔
نیشنل کانفرنس بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی سب سے پرانی مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت ہے، اس پر گزشتہ کئی دہائیوں سے شیخ محمد عبداللہ کے خاندان کا غلبہ رہا ہے۔
سن 1981 میں شیخ محمد عبداللہ نے جو اس وقت جموں و کشمیر کے وزیرِاعلیٰ بھی تھے، اپنے سب سے بڑے بیٹے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور انہیں نیشنل کانفرنس کی صدارت سونپ دی تھی۔
فاروق عبداللہ ستمبر 1982 میں اپنے والد کے انتقال کے بعد جموں و کشمیر کے وزیرِاعلیٰ بنے تھے، انہوں نے سن 2002 میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی شکست کے بعد بھارت کی قومی سیاست میں سرگرم ہوکر حصہ لینا شروع کیا۔ اور اسی سال انہوں نے پارٹی کے صدر کا عہدہ بھی چھوڑ دیا۔
البتہ انہوں نے یہ عہدہ کسی اور کے لیے نہیں بلکہ اپنے اکلوتے بیٹے عمر عبداللہ کے لیے چھوڑا تھا۔ عمر عبداللہ 2009 تک اس عہدے پر براجمان رہے اور پھر نو جنوری 2009 کو جموں و کشمیر کے آٹھویں وزیرِاعلیٰ منتخب ہوئے۔ وہ اس عہدے پر چھ سال تک فائز رہے۔
انہوں نے 'ایک شخص ایک عہدہ' کے عزم کا اعلان کیا اور پارٹی کی صدارت چھوڑدی، لیکن ان کی جگہ ایک مرتبہ پھر فاروق عبداللہ کو نیشنل کانفرنس کا صدر بنا دیا گیا۔
پانچ دسمبر2022 کو 85 سالہ فاروق عبداللہ کو ایک مرتبہ پھر پانچ برس کے لیے نیشنل کانفرنس کا بلامقابلہ صدر منتخب کرلیا گیا۔ حالانکہ اس سے قبل وہ یہ اعلان کرچکے تھے کہ وہ اس مرتبہ عہدے کے لیے انتخاب کا حصہ نہیں ہوں گے۔
رواں برس 18 نومبر کو نیشنل کانفرنس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پارٹی کے سینئر ساتھیوں کی کوششوں کے باوجود فاروق عبداللہ اس مرتبہ پارٹی صدر کے عہدے کے لیے انتخاب نہ لڑنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ ان کے اس اچانک فیصلے نے سب کو حیران کردیا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے اپنی ایک ٹوئٹ میں پارٹی رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ وہ صدر کے عہدے کے انتخاب میں نامزدگیوں کے بارے میں سنجیدگی سے غور کریں تاکہ سب سے بہتر شخص پارٹی کو آگے لے جاسکے۔
تاہم پانچ دسمبر کو جب فاروق عبداللہ کے ایک بار پھر نیشنل کانفرنس کا بلامقابلہ صدر منتخب ہونے کا اعلان ہوا تو بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کے سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا۔
فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ پارٹی کارکن اور اُن کےقریبی ساتھی اُن کے صدر بنے رہنے پر بضد تھے اس لیے انہیں ایک بار پھر یہ ذمہ داری سنبھالنی پڑی۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ چاہتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل سیاسی جماعتوں میں شامل ہوکر ان کے اور اس قوم کی مشعل بردار بن جائے۔
ادھر فاروق عبداللہ کے صدر کا انتخاب نہ لڑنے کے فیصلے پر قائم نہ رہنے کے سوال پر نیشنل پارٹی کے ایک سرکردہ لیڈر نے کہا کہ ''ڈاکٹر صاحب پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ تب تک پارٹی صدر ہیں جب تک کوئی اور اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لیے نہیں آجا تا۔
کیا فاروق عبداللہ کا اعلان پبلسٹی اسٹنٹ تھا؟
دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ فاروقعبد اللہ کا یہ اعلان کہ وہ اس مرتبہ صدر کے عہدے کے لیے الیکشن نہیں لڑیں گے محض ایک پبلسٹی اسٹنٹ تھا ۔
تاہم نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار اس دعوے کو تردید کرتے ہیں۔ ان کے بقول فاروق عبداللہ کو پارٹی صدر رہنے کے لیے بڑی مشکل سے قائل کیا گیا۔
نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے بتایا کہ نامزدگیاں داخل کرانے کی آخری تاریخ تک صرف فاروق عبد اللہ کی نامزدگی موصول ہوئی تھی ۔
انہوں نے کہا کہ ان کے حق میں وادی کشمیر سے 183، جموں سے 396 اور لداخ سے 26 تجاویز موصول ہوئی تھیں اور پھر تقریباً سات ہزار ڈیلی گیٹس پر مشتمل الیکٹورل کالج نے ان کے بلامقابلہ انتخاب کی توثیق کردی۔لہٰذا یہ کہنا کہ نیشنل کانفرنس پر شیخ خاندان کی اجارہ داری برقرار رکھنے کی یہ دانستہ کوشش تھی، محص بے بنیاد الزام ہے۔
ادھر فاروق عبداللہ کے نیشنل کانفرنس کا صدر منتخب کیے جانے کے اعلان سے سے چند روز قبل ہی سجاد غنی لون کو جموں و کشمیر پیپلزکانفرنس کا دوبارہ چیئرمین منتخب کرلیا گیا تھا۔
سجاد غنی لون سرکردہ کشمیر سیاسی رہنما اور سابق وزیر خواجہ عبدالغنی لون کے بیٹے ہیں، جنہیں 21 مئی 2002 کو مسلح افراد نے سری نگر کی مرکزی عید گاہ یں گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔عبدالغنی لون نے کانگریس پارٹی اور نیشنل کانفرنس میں کئی برسوں تک شامل رہنے کے بعد 1978 میں پیپلزکانفرنس قائم کی تھی۔
ان کے قتل کے بعد ان کے بیٹے نے پیپلزکانفرنس کی قیادت سنبھال لی تھی اور اب وہ کئی برس بعد ہونے والے پارٹی انتخابات میں بلامقابلہ چیئرمین منتخب ہوئے ہیں۔
پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی کہانی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ 1999 میں جب بھارت کے پہلے مسلمان وزیرِداخلہ مفتی محمد سعید نے جموں و کشمیر میں ایک نئی سیاسی جماعت پی ڈی پی کے قیام کا اعلان کیا تو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ نیشنل کانفرنس، کانگریس اور دیگر مرکزی دھارے کی جماعتوں کا بہتر نعم البدل فراہم کرے گی اور مکمل طور پر جمہوری اصولوں پر چلائی جائے گی۔
تجزیہ کار ڈاکٹر شیخ شوکت حسین کا کہنا ہے کہ یہ پارٹی بھی نیشنل کانفرنس ہی کی طرح موروثی یا خاندانی سیاست کی آماج گاہ بن کر رہ گئی ہے۔ ان کے بقول مفتی سعید کے بعد پی ڈی پی پر ان کی بیٹی محبوبہ مفتی کا مکمل کنٹرول ہے بلکہ حالیہ مہینوں میں پی ڈی پی چھوڑ کر جانے والے کئی افراد نے بھی ان پر پارٹی کے اندر آمرانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
البتہ ان کے ایک دستِ راست اور سابق وزیر سید نعیم اختر اس کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''جہاں تک کسی سیاسی جماعت میں ایک ہی خاندان کے افراد کی موجودگی اور اہم عہدوں پر ان کی تعیناتی کا تعلق ہے، اسے آپ بھارت و پاکستان کی سیاست کے سیاق و سباق سے الگ نہیں کرسکتے کیوں کہ یہاں کے لوگ روایت پسند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک پی ڈی پی کا تعلق ہے، اس میں موروثی سیاست پروان نہیں چڑھی ہے، کیوں کہ مفتی سعید کسی بڑے باپ کے بیٹے نہیں تھے بلکہ ایک عام انسان تھے اور علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے 50 سال کی سیاسی جدوجہد کے بعد ہی ایک الگ جماعت قائم کی۔
ان کے بقول اس سب کے باوجود انہیں 2002 کے عام انتخابات کے لیے امیدوار نہیں مل رہے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ، بیٹی، برادرِنسبتی ، ہم زلف اور چند پرانے ساتھیوں کو اس کے لیے آمادہ کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ''محبوبہ مفتی ایک بہادر اور حوصلہ مند خاتون اور پرعزم سیاسی رہنما ثابت ہوئی ہیں اور باپ بیٹی دونوں ایک ڈبل اسٹیم ٹیم بن گئے۔ مفتی سعید کا سیاسی تجربہ اور محبوبہ مفتی کی تگ و دو نے کام دکھایا، اس لیے میں کہوں گا کہ وہ سیلف میڈ ہیں، ان کی سیاسی ساکھ اور قد ان کے والد کی وجہ سے نہیں ہے۔''
استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں
ادھر جہاں تک استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیر ی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اگرچہ پانچ اگست 2019 کے بعد سے جمود کا شکار ہیں ان میں بھی چند ایک کو چھوڑ کر کم و بیش سب پر موروثی سیاست غالب رہی ہے۔
واضح رہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرکے ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا اور انہیں براہ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقے قرار دے دیا تھا۔
سید علی شاہ گیلانی تحریک حریت جموں و کشمیر کے سربراہ اور کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین تھے تو سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ روایتی موروثی سیاست کو آگےلے جاتے ہوئے وہ اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر نعیم گیلانی کو اپنا سیاسی جانشین مقرر کریں گے۔ لیکن سید گیلانی نےمارچ 2018 میں اپنے دستِ راست محمد اشرف خان 'صحرائی' کو تحریک ِ حریت کا سربراہ مقرر کرکے ان قیاس آرائیوں کو ختم کردیا ۔
صحرائی مئی 2021 میں جموں کے ایک اسپتال میں انتقال کرگئے، انہیں ایک قریبی جیل سے وہاں منتقل کیا گیا تھا۔ بعد ازاں سید علی گیلانی یکم ستمبر 2021 کو طویل علالت کے بعد سری نگر میں انتقال کرگئے ۔
جس کے بعد مسلم لیگ جموں و کشمیر کے محبوس رہنما مسرت عالم بٹ کو حریت کانفرنس (گیلانی) کا چیئرمین بنانے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم پانچ اگست 2019 کے بعد استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی دیگر جماعتوں کی طرح حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کی سرگرمی وقفے وقفے سے اخبارات کے لیے بیانات جاری کرنے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
حقِ خود ارادیت کی داعی جماعت عوامی مجلسِ عمل پر میرواعظ خاندان کا کافی عمل دخل ہے بلکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پارٹی میں دوسرے درجے کی لیڈرشب کو ابھرنے کا ماضی میں موقع دیا گیا اور نہ مئی 1991کے بعد ،جب اس کے بانی میرواعظ محمد فاروق کے قتل کے بعد پارٹی کی باگ ڈور اُن کے بیٹے میرواعظ عمر فاروق کے ہاتھ میں آگئی۔
'موروثی سیاست نے کشمیر کو نقصان پہنچایا ہے'
شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ موروثی سیاست نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ کشمیر کو فائدے کے بجائےنقصان پہنچایا ہے اور اب عام لوگوں میں تیزی کے ساتھ یہ احساس پیدا ہورہا ہے اس طرح کی سیاست اور سیاسی رہنماؤں کو سائیڈ لائن کرنے میں ہی ان کا مفاد ہے۔
بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی نے بارہا موروثی سیاست کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یومِ آئین کے موقعے پر نئی دہلی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ خاندان پر مبنی سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک بھارت کے ہر حصے میں خاندان پر مبنی سیاسی جماعتوں کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔ تاہم ان کے بقول وہ ایک ہی خاندان کے کئی افراد کی سیاست میں شمولیت کے خلاف نہیں ہیں لیکن یہ قابلیت کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
نعیم اختر نے کہا کہ نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جو کئی ریاستوں میں بھی حکومت کررہی ہے موروثی یا خاندانی سیاست سے مبرا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ''بی جے پی میں بھی آپ کو باپ کے بعد بیٹا یا بیٹی اور بھائی، بھتیجے کی درجنوں مثالیں ملیں گی لیکن چوں کہ نریندر مودی کی ذات تمام تر سیاسی توجہ کا مرکز بن کر رہ گئی ہے اس لیے یہ ناقدین کی نظروں سے اوجھل ہے۔''
شیخ شوکت حسین کہتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں میں چوں کہ موروثی سیاسی رہنماؤں کی اجارہ داری ہے اور حکومتوں میں بھی موروثیت کے گہرے سائے نظر آتے ہیں۔ اس لیے ایک مخصوص سیاسی ٹولے کےعلاوہ عام پڑھے لکھے اور حساس افراد سیاسی جماعتوں کا حصہ بننے سے کتراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خود جموں و کشمیر میں کئی ایسی مثالیں ملیں گی جب جمہوری مزاج رکھنے والے نوجوان اور وہ افراد جو سیاست میں آکر عام لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے تھے ان جماعتوں میں شامل ہونے کے بعد وہاں چند ہفتے یا چند ماہ سے زیادہ نہیں ٹک سکے۔
تاہم صحافی اور سیاسی مبصر ارون کمارکا کہنا ہے کہ موروثی سیاست کا یہ تماشہ عالمگیر ہے اور نوجوانوں کا حساس طبقہ اس کے منفی حاصل کی وجہ سے سیاست کو اپنے کریئر کے طور پر اختیار کرنے میں ہمیشہ گریزاں نظر آتا ہے۔