امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل انکارپوریشن اپنی چین میں کچھ پیدواری لائنز کو بھارت اور ویتنام منتقل کرنے کے منصوبے کو تیز کر رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی سخت کرونا پالیسی اور کاروبار ی ماحول کے باعث عالمی سپلائی چین متاثر ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایپل نے اپنی پروڈکشن لائنز یہاں سے منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
وائس آف امریکہ کے جوائس ہوانگ کی رپورٹ کے مطابق ایپل کا یہ اقدام دنیا کے مختلف ملکوں کی جانب سے 'ڈی سینیفکیشن' یعنی چین پر انحصار کم کرنے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہو گی۔
کیا بھارت اگلی منرل ہوگا؟
تائی پے میں انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک ری سرچ کے زیرانتظام اکنامک فورکاسٹنگ سینٹر کے ریسرچ فیلو دارسن چیو نے وی او اے کو بتایا کہ چین کے وائرس کے خلاف اقدامات نے ایپل سمیت کئی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سپلائی چین میں خلل پڑنے کے خطرے کے پیش نظر دوسرے ملکوں کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اگرچہ چین کووڈ کی پابندیوں میں نرمی کو تیار ہے لیکن غیر یقینی صورتِ حال برقرار ہے کیوں کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اچانک پالیسی میں تبدیلی کا سامنا کرتی ہیں۔ یہی وجوہات ہیں کہ ایپل اپنی پروڈکشن لائنز کو وہاں سے منتقل کرنے کے عمل کو تیز کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایپل سمیت کئی کمپنیوں نے بھارت میں چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کی صلاحیت دیکھی ہے اور وہاں ''دنیا کی اگلی فیکٹریاں'' بن سکتی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مزدوری اور زمین کی قیمت چین کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
واشنگٹن میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن فاؤنڈیشن (آئی ٹی آئی ایف) کےڈائریکٹر آف گلوبل انوویشن پالیسی اسٹیفن ایزل نے وی او اے کو بتایا کہ یہ ایک ابھرتے ہوئے رجحان کو نمایاں کرتا ہے جہاں نہ صرف ایپل بلکہ مختلف کمپنیاں چین کے ماحول کے بارے میں فکر مند ہیں اور یہ صرف کووڈ ہی کی وجہ سے نہیں ہے۔
ان کے بقول چین میں کمپنیوں پر سائبر حملے ہونا، چینی حکومت کی جانب سے ڈیٹا فلوز پر لاگو ہونے والی سخت پابندیوں کے علاوہ بہت سے ایسے عوامل ہیں جو مینوفیکچررز کے لیے چین میں ماحول کو بہت کم پرکشش بنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ ایپل عالمی ہائی ٹیک پروڈکشن کے بڑے شیئر کی چین سے منتقلی میں اہم کردار ادا کرے۔
ایزل کہتے ہیں کہ اگر ایپل بھارت سے مصنوعات بھیجنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کئی ملٹی نیشنلز اس کی پیروی کرسکتی ہیں کیوں کہ ایپل نے بھارت میں آئی فون 14 سیریز کی ایک چھوٹی سی شرح کی پروڈکشن شروع کردی تھی۔
واضح رہے کہ وال اسٹریٹ جنرل نے چھ دسمبر کو اپنی رپورٹ میں اس معاملے سے جڑے افراد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایپل نے اپنے سپلائیرز کو کہا تھا کہ وہ اس کی مصنوعات کی ایشیا میں کہیں اور خاص طور پر بھارت اور ویت نام میں اسمبلنگ کے لیے زیادہ فعال طریقے سے منصوبہ بندی کریں، تاکہ چین میں موجود اسمبلرز پر انحصار کم ہو۔
خیال رہے کہ تائیوان کی ملٹی نیشنل کمپنی فوکس کون چین کے شہر زینگ زو میں واقع پلانٹ میں ایپل کی مصنوعات تیار کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق انسداد وائرس کے اقدامات اور گزشتہ ماہ پلانٹ کے تین لاکھ ورکرز کے درمیان اجرت کے تنازع نے ایپل کو اس پلانٹ میں کاروبار کے بارے میں بے چین کردیا ہے۔ اس پلانٹ پر 85 فی صد آئی فون کی پرو سیریز تیار ہوئی ہے۔
مذکورہ رپورٹ میں ہانگ کانگ میں ٹی ایف انٹرنیشنل سیکیورٹیز کے تجزیہ کار منگ چی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ایپل کا طویل مدتی ہدف بھارت سے 40 سے 45 فی صد آئی فونز بھیجنا ہے۔ اس وقت یہ شرح سنگل ڈجٹ میں ہے۔
اس معاملے پر جب وی او اے نے رابطہ کیا تو فوکس کون نے جواب دینےسے انکار کردیا۔ البتہ کمپنی نے جمعرات کو اپنے وی چیٹ اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ اس نے اپنے زینگ زو پلانٹ سے کووڈ کی سخت پابندیاں ہٹا لی ہیں۔
واشنگٹن میں البرائٹ اسٹون برج گروپ میں ٹیکنالوجی پالیسی کی قیادت کرنے والے اورسینئر نائب صدر برائے چین پال ٹرائیلو نے وی او اے کو بتایا کہ ایپل نے فوکس کون کے ساتھ بھارت میں کچھ مینوفیکچرنگ کی ہے اور اس کا منصوبہ ہے کہ اگلے دو برسوں میں 50 ہزار ورکرز کو شامل کرکے 70 ہزار تک لے جایا جائے۔
تکلیف دہ منتقلی
انہوں نے خبردار کیا کہ اگرچہ یہ فوکس کون کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ چین کی انتہائی بہتر سپلائی چین کی نقل بھارت میں تیار کرے کیوں کہ وہاں ہنر مند کارکنان اور انفرااسٹرکچر بشمول ایئرپورٹس، بندرگاہیں اور تیز رفتار ٹرینوں سمیت کم قیمت پر ایکو سسٹم کے آلات فراہم کرنے والوں کی کمی ہے۔
پال ٹرائیلو نے وی او اے کو بتایا کہ بھارت کے کچھ فائدے بھی ہیں، یہ بہت سارے انجینئرز کو تیار کرتا ہے لیکن آپ مختلف ثقافتی مسائل، توقعات اور مزدوری کے طریقوں اور ان تمام چیزوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ لہٰذا یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ کسی چیز کو اٹھا کر کسی دوسرے ملک میں رکھ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ آپ کو مقامی صورتِ حال کو سمجھنا ہوگا اور مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا جو تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ فوکس کون جیسی کمپنیا ں پیداوار کا انتظام کرنے میں اچھی ہیں لیکن بھارت میں لاگت کا انفراسٹرکچر مختلف ہوگا۔لہذا ان کے بقول ایپل کی سپلائی چین میں کچھ تنوع چین کے اندر ہوسکتا ہے، کیوں کہ فوکس کون مبینہ طور پر چین کے شمالی صوبے شانسی میں اپنے تائی یوان پلاٹ کی توسیع کے لیے کوشاں ہے۔
ایزل کا کہنا تھا کہ پروڈکشن ایکو سسٹم نہ صرف مزدوری ل کم کرنے بلکہ لاگت کو کم کرنے میں اہم ہے۔ لہٰذا بھارت کے لیے چیلنج کئی گنا ہونے والا ہے۔ جہاں سپلائی کرنے والوں کی ایک مقامی بنیاد بنانا جو کم لاگت پر پیداوار کو سہارا دے سکے اور پھر اس بات کو یقینی بنا سکے کہ بھارت کے پاس انتہائی تربیت یافتہ افرادی قوت اور ایسے افراد ہیں جو آئی پیڈز یا فونز کے ساتھ پیچیدہ الیکٹرونکس تیار کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔