رسائی کے لنکس

بھارت: مسلمان خواتین کی آن لائن 'نیلامی' کی ایپ بنانے والے شخص پر مقدمے کا اعلان


ایپلی کیشن پر مبینہ طور مسلمان خواتین کی ذاتی معلومات اور تصاویر کی 'نیلامی' کی جاتی تھی۔
ایپلی کیشن پر مبینہ طور مسلمان خواتین کی ذاتی معلومات اور تصاویر کی 'نیلامی' کی جاتی تھی۔

بھارت کےدارالحکومت نئی دہلی کی پولیس نے مبینہ طور پر ایک ایپلی کیشن کے ذریعے 80 سے زیادہ مسلمان خواتین کی ذاتی معلومات اور تصاویر کو آن لائن 'نیلامی' کے لیے عام کرنے والے شخص کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وائس آف امریکہ کے شیخ عزیز الرحمٰن کی رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس نے یہ اعلان اتوار کو دہلی کے لیفٹننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ کی جانب سے 25 سالہ اوم کریشور ٹھاکر کے خلاف قانونی کارروائی کو آگے بڑھانے کی اجازت دینے کے بعد کیا ہے۔

اوم کریشور ٹھاکر نے ایک معاون ٹوئٹر ہینڈل کے ساتھ ایک اوپن سورس ایپ ''سلی ڈیلز' تیار کی تھی، اس ایپ کی ہوسٹنگ جولائی 2021 میں ’گٹی ہٹ‘ نامی ویب پلیٹ فارم پر کی گئی تھی، جہاں مسلم خواتین کی 'فروخت' یا 'نیلامی' کے لیے ان کی پروفائلز ڈالی جاتی تھیں۔

خیال رہے کہ 'سلی' ایک ہندی سلینگ ہے جسے دائیں بازوں کے ہندو انتہا پسند گروہوں کی جانب سے بعض اوقات مسلم خواتین کی ٹرولنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اوم کاریشور ٹھاکر کی بنائی گئی ایپ پر واقعی کوئی نیلامی نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی اس بنیاد پر کوئی لین دین کی سہولت دی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف مسلم خواتین کی تذلیل کرنا تھا۔

عدالت میں جمع شدہ دستاویزات کے مطابق ٹھاکر نے خواتین کی سوشل میڈیا یا دیگر پلیٹ فارمز پر دستیاب تصاویر کو جمع کیا تھا۔ اس کے بعد ''ڈیلز آف دی ڈے'' کے طور پر پوسٹ کرنے کے لیے متعلقہ پروفائلز تیار کیں۔ ان خواتین میں صحافی، ایکٹوسٹس، محققین، فنکار اور نریندر مودی حکومت کی دیگر ناقدین شامل تھیں۔

جنوری میں کمپیوٹر انجینئر ٹھاکر کو دہلی پولیس نے بھارت کے شہر اندور سے گرفتار کیا اور ان پر ''ریاست کے خلاف'' جرائم کے الزامات لگائے۔ اس الزام پر ٹرائل کے لیے حکومت سے خصوصی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔

گزشتہ برس ’سلی ڈیلز‘ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس سے ملتی جلتی ایک اور ایپ 'بلی بائی' گٹی ہب پر بنائی گئی، جہاں رواں برس جنوری میں 100 سے زیادہ مسلم خواتین کی تصاویر سامنے آئیں۔

تاہم ملک بھر میں آنے والے سخت ردِعمل کے بعد فوری طور پر ان دونوں ایپس کو ہٹا دیا گیا۔ ادھر پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ دونوں ایپلی کیشنز کی تیاری دائیں بازوکے ہندو نظریے سے متاثر ہوکر کی گئی تھی۔

البتہ ٹھاکر کا باضابطہ طور پر کسی مخصوص دائیں بازو کی ہندو تنظیم سے تعلق نہیں ہے جب کہ کسی ہندو گروپ نے بھی باضابطہ طور پر ملزم کی حمایت نہیں کی ہے۔

ادھر دہلی پولیس کی جانب سے جنوری میں ٹھاکر کی گرفتاری کے بعد اقوامِ متحدہ کے اقلیتی مسائل پر خصوصی نمائندے فرنند ڈی ویرینیس نے اس ایپ کے پیچھے موجود افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

انہوں نے جنوری میں ٹوئٹ کیا تھا کہ بھارت میں اقلیتی مسلم خواتین کو سلی ڈیل جیسی سوشل میڈیا ایپس پر ہراساں اور 'فروخت' کیا جاتا ہے۔ یہ نفرت انگیز ی کی ایک قسم ہے، جس کی مذمت ہونی چاہیے اور ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

ان کے بقول اقلیتوں کے تمام انسانی حقوق کو مکمل اور یکساں طور پر تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔

''مسلمان ہونے پر ہدف بنایا گیا''

دہلی سے تعلق رکھنے والی کمرشل پائلٹ 32 سالہ حنا خان نے جب گزشتہ برس خود کو سلی ڈیلز پر دیکھا تو انہیں شدید صدمہ پہنچا۔

حنا خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ''میں الفاظ میں بیان نہیں کرسکتی کہ جب میں نے خود کو سلی ڈیلز پر دیکھا تو مجھے کتنا صدمہ ہوا اور کتنا غصہ آیا۔''

ان کے بقول ''میں کبھی اپنی زندگی میں اتنا غصہ نہیں ہوئی۔ میں کبھی یہ یقین نہیں کرسکتی تھی کہ کوئی مجھے ایک آن لائن ایپلی کیشن پر 'سلی آف دی ڈے' یا 'فلیور آف دی منتھ' کے طور پر شیئر کرسکتا ہے۔''

انہوں نے کہا کہ وہ کئی مہینوں تک اسی غصے اور صدمے میں زندہ رہیں۔ ان کے بقول میں نے کبھی ہندو قوم پرستوں پر تنقید کے لیے نہ کچھ لکھا نہ کچھ کہا، پھر بھی انہوں نے مجھے اس لیے ہدف بنایا کہ میں مسلمان ہوں۔

''آواز اٹھانے پر جان سے مارنے اور ریپ کی دھمکیاں''

کولکتہ سے تعلق رکھنے والی وکیل اور ایکٹوسٹ نور مہوش بھی سلی ڈیلز کا شکار بنیں اور ان کی تصاویر بھی پوسٹ کی گئیں۔وہ کہتی ہیں کہ ''بے ہودہ سلی ڈیلز اور بلی بائی کے حملوں' نےمتاثرین پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب کیے ہیں۔

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ بھارت میں مذہبی بنیاد پر فرقہ واریت اور معاشرتی تقسیم کے ماحول میں مسلم خواتین کی آن لائن ٹرولنگ میں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر مسائل اٹھانے پر کئی مسلمان خواتین کو جان سے مارنے اور ریپ کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بقول ایسے نفرت انگیز حملوں کے پیچھے اکثر دائیں بازوں کے ہندو گروہ ہوتے ہیں اور یہی سلی ڈیلز اور بلی بائی کے پیچھے پائے گئے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ لوگ ان ایپلی کیشنز پر ہونے والے واقعات کو بھول جائیں گے اور اس بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ جنھیں تصاویر اور ذاتی معلومات سلی ڈیلز اور بلی بائی پر نمایاں ہونے کے دردناک تجربے سے گزرنا پڑا ہے، ان میں سے اکثر کو یہ صدمہ زندگی بھر تکلیف دیتا رہے گا۔

XS
SM
MD
LG