امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 2019 میں جوہری تصادم کا اندیشہ تھا البتہ امریکہ کی مداخلت کی وجہ سے اس کشیدگی میں کمی آئی۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقرر کردہ امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار اور خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سابق سربراہ مائیک پومپیو نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں لکھاہے کہ میرا نہیں خیال کہ دنیا یہ درست طور پر جانتی ہے کہ بھارت اور پاکستان کی مخاصمت فروری 2019 میں کس طرح جوہری تصادم تک پہنچ چکی تھی۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق مائیک پومپیو کی کتاب ‘نیور گیو این اینچ‘ منگل کو شائع ہوئی ہے۔خیال رہے کہ مائیک پومپیو کے بارے میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ مستقبل میں صدارتی امیدوار ہو سکتے ہیں۔
فروری 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا تھا جس میں 40 سے زائد اہل کار مارے گئے تھے۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام ایک عسکری تنظیم پر لگایا تھا جس کا مرکز مبینہ طور پر پاکستان میں تھا۔
اس حملے کے بعد نئی دہلی نے اسلام آباد کے زیرِ انتظام کشمیر سمیت سرحد سے ملحقہ دیگر علاقوں میں فضائی کارروائی کرکے عسکریت پسندوں کے کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا البتہ پاکستان نے ایسی کسی بھی کارروائی کی تردید کی تھی۔
اس کارروائی کے اگلے روز پاکستان کی فضائیہ نے بھارت کا ایک جنگی جہاز بھی مار گرایا تھا اور اس کے پائلٹ ابھی نندن کو حراست میں لے لیا تھا۔
مائیک پومپیو اس وقت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ ان کی شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ سے ہونے والی ملاقات کے کے لیے ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں موجود تھے۔
اس دورکے واقعات کے حوالے سے امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ کا اپنی کتاب میں کہنا تھا کہ ان کو ایک ہنگامی ٹیلی فون کال کے سبب نیند سے جگایا گیا۔ یہ بھارت کی ایک اعلیٰ سرکاری عہدے دار کی کال تھی۔
اس ٹیلی فون کال کے بارے میں انہوں نےلکھا ہے: ’’انہیں (بھارتی عہدے دار کو) یقین تھا کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں سے حملے کی تیاری شروع کرچکا ہے۔ انہوں نے مجھےبتایا کہ بھارت بھی اپنی تیاریوں پر غور کر رہا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید لکھا: ’’میں نے ان سے کہا کہ کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں صورتِ حال سلجھانے کے لیے کچھ وقت دیں۔‘‘
مائیک پومپیو نے یہ وضاحت نہیں کی کہ انہیں بھارت سے کس عہدے دار کی ٹیلی فون کال موصول ہوئی تھی۔ البتہ انہوں نے اس حوالے سے مزید لکھا کہ امریکہ کے سفارت کاروں نے پاکستان اور بھارت دونوں کو قائل کیا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی تیاری سے باز رہیں۔
مائیک پومپیو کے مطابق کوئی بھی دوسری قوم وہ سب کچھ نہیں کر سکتی جو اس شب ہم (امریکہ) نے ایک بھیانک انجام کو روکنے کے لیے کیا۔
امریکہ کے سابق وزیرِ خارجہ نے لکھا ہے کہ پاکستان نے ’’ممکنہ طور پر کشمیر میں ہونے والے حملہ ہونے دیا تھا‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ انہوں نے اس وقت پاکستان کے حقیقی رہنما سے بات کی جو کہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ تھے۔
پومپیو کے مطابق ٹیلی فون کال میں آرمی چیف سے ہونے والی بات چیت میں منتخب حکومت کی کمزوری کا اشارہ موجود تھا۔ خیال رہے کہ جنوری 2019 میں پاکستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت تھی اور عمران خان وزیرِ اعظم تھے۔
فروری 2019 میں کیا ہوا تھا؟
بھارت کے زیرِِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر سے 21کلو میٹر جنوب میں14 فروری 2019 کو سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر خود کش حملہ کیا گیا تھا۔
نئی دہلی نے حملے کے بعد ردِ عمل کے طور پر منقسم کشمیر کے درمیان چلنے والی بس سروس 'کارروانِ امن ' بند کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان کی ایک عسکری تنظیم 'جیشِ محمد' پر عائد کی تھی۔
بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے اگست 2020 میں خصوصی عدالت میں 13 ہزار 800 صفحات پر مشتمل رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں 19 افراد پر حملے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ان میں جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر ، ان کے دو بھائی عبد الرؤف اصغر اور عمارعلوی، ایک قریبی رشتے دار محمد عمر فاروق اور خود کش حملہ آور عادل احمد ڈار بھی شامل تھے جب کہ دیگر ملزمان میں سے 11 کا بھارت کے زیرِِ انتظام کشمیر اور تین کا تعلق پاکستان سے تھا۔
پاکستان نے پُلوامہ حملے میں کسی بھی طرح ملوث ہونے سے انکار کیا تھا ۔
پلوامہ حملے کے بارے میں پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ یہ ایک قابلِ تشویش واقعہ تھا لیکن اس کی ذمے داری کو پاکستان سے جوڑنا سراسر غلط اور بے بنیاد الزام ہے۔
اس حملے کے فوراً بعد پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی یقینی طور پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں کی گئی تھی۔ یہ ایک ایسا منصوبہ تھا جس پر عمل درآمد بھی مقامی طور پر کیا گیا تھا۔ پاکستان کا اس کارروائی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔
پلوامہ حملے کے بعد بھارت کی کارروائی
بھارت کے جنگی طیاروں نے 26 فروری 2019 کو پاکستان کے صوبۂ خیبر پختونخوا میں بالا کوٹ کے مقام پر جیشِ محمد کے مبینہ تربیتی مرکز پر حملہ کرکے اسے تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا ۔
بھارتی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا تھا کہ پلوامہ حملے کے جواب میں کی گئی فضائی کارروائی میں کالعدم جیشِ محمد کے اراکین، تربیت کرنے والوں اور بعض بڑے کمانڈروں سمیت 300 افراد ہلاک ہوگئےتھے۔
البتہ بھارت کے سیکریٹری خارجہ نے بالا کوٹ میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنانے کی تصدیق تو کی تھی لیکن عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائی تھیں۔
پاکستان اور اس کے ذرائع ابلاغ نے اس حملے میں کسی جانی نقصان ہونے کی تردید کی تھی۔البتہ خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے مقامی لوگوں کے حوالے سے صرف ایک شہری کے زخمی ہونے کی خبر دی تھی۔
بھارتی جنگی طیارے کی تباہی
بھارت کے بالا کوٹ پر حملے کے اگلے ہی روز پاکستان کی فضائیہ نے جوابی کارروائی کی۔ دونوں ممالک کی فضائیہ کے طیارو ں کے درمیان ڈوگ فائٹنگ کے نتیجے میں پاکستان نے بھارت کے ایک پائلٹ ابھی نندن کے طیارے کو مار گرایا تھا۔
پائلٹ اس کارروائی میں محفوظ رہا، جسے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں فوج نے حراست میں لے لیا تھا۔
پاکستان کی فوج نے 27 فروری کو لائن آف کنٹرول کے قریب فضائی کارروائی کے دوران دو بھارتی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا جن میں سے ایک پاکستان کی حدود میں گرا تھا۔
بھارتی طیارے کے پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بعد ازاں پاکستان نے ’جذبہ خیر سگالی‘ کے تحت واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت کے حوالے کردیا تھا۔
قبل ازیں پاکستان کے وزیرِِ اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں بھارت کے ساتھ کشیدگی دور کرنے کے لیے ابھی نندن کو رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بھارت کی حزبِ اختلاف کے شک و شبہات
بھارت میں حزبِ اختلاف نے الزام عائد کیا تھا کہ بالا کوٹ پر بھارتی فضائی حملے کا مقصد بھارت میں 11 اپریل اور 19 مئی 2019 کے درمیان ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو فائدہ پہنچانا تھا۔
واضح رہے کہ 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی تھی اور نریندر مودی دوسری بار وزیراعظم بنے تھے۔
ابھی تک پاکستان کی حکومت کی جانب سے سابق امریکی وزیر خارجہ کی کتاب میں بیان کیے گئے واقعات یا بیانات کے حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اس رپورٹ میں شامل زیادہ تر مواد خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لیا گیا ہے۔