پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے افواجِ پاکستان کے سپریم کمانڈر اور صدرِمملکت عارف علوی کو ایک خط لکھا ہے جس میں انٹیلی جنس ایجنسیز اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کا نوٹس لینے اور مؤثر اقدامات کی سفارش کی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے لکھے گئے خط میں پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کی قرار داد بھی شامل کی گئی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنان کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان پر زیرِحراست تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ یہی الزامات ماضی میں عمران خان پر عائد کیے جاتے تھے کہ وہ ایجنسیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور اب یہی الزامات موجودہ حکومت پر بھی لگائے جا رہے ہیں۔
عمران خان کی طرف سے صدر مملکت کو بھجوائے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی اور پارلیمانی پارٹی کا مشترکہ اجلاس 29 جنوری کو منعقد ہوا تھا جس میں متفقہ طور پر قرار داد منظور کی گئی جس میں آپ سے بطور سپریم کمانڈر افواجِ پاکستان خفیہ ایجنسیز اور مقتدرہ کے سیاست میں کردار کا نوٹس لینے کی سفارش کی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا کا 27 جنوری کا بیان اس حوالے سے اہم مثال ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ کا تعین وہ نہیں کرسکتے۔ یہ کام انٹیلی جنس ایجنسیز اور اسٹیبلشمنٹ کو کرنا ہے۔
پی ٹی آئی کی قرار داد میں صدرِ مملکت کی توجہ مبینہ طور پر اغوا اور جھوٹے پرچوں(بقول ان کے) کے اندراج کی جانب بھی مبذول کرائی گئی ہے۔ قرار داد میں پی ٹی آئی قائدین اور کارکنان کو مبینہ دھمکیوں اور ان پر زیرِحراست تشدد کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ مذکورہ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ آئین اور قانون کے انحراف اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
اس قرار داد اور خط کے ساتھ گورنر خیبرپختونخوا کی گفتگو کا متن پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔
الیکشن کی تاریخ کا معاملہ بدستور حل طلب
دوسری جانب دونوں صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے معاملہ اب تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ گورنر خیبرپختونخوا غلام علی کا بدھ کو الیکشن کمیشن کو خط موصول ہوگیا ہے جس میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے کہا ہے کہ صوبے میں الیکشن کی تاریخ خود الیکشن کمیشن مقرر کرے۔لیکن اس حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مشاورت کی جائے۔
ادھر گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کا الیکشن کمیشن کے نام سوشل میڈیا پر وائرل خط میں کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے لیے وزیرِاعلی کے مشورے پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی میں نے اسمبلی توڑی۔ لہٰذا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا ان کا کام نہیں یہ الیکشن کمیشن خود کرے۔
واضح رہے کہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 105(3) میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ گورنر اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ مقرر کرے گا۔ قومی اسمبلی کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 57(1) میں غیر مبہم طور پر لکھا گیا کہ صدر الیکشن کمیشن کی مشاورت سے عام انتخابات کی تاریخ کا تعین اور فیصلہ کرے گا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق گورنر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں صدرِمملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کا کہا گیا ہے۔
ان کے بقول صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے گورنر تاریخ دے سکتے ہیں لیکن اگر وہ نہیں دے رہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، الیکشن کمیشن بھی اس بارے میں تاریخ دے سکتا ہے۔
کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ گورنر پنجاب کا کہنا کہ انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی اور 48 گھنٹے کا وقت پورا ہونے پر اسمبلی خود تحلیل ہوگئی۔ لہٰذا الیکشن کمیشن خود ہی انتخابات کے بارے میں فیصلہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی نے بھی صرف ایک لائن میں اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس لکھی۔صوبے میں صورتِ حال معمول کی تھی۔ امن و امان کا بھی مسئلہ نہیں تھا۔ لہٰذا اب الیکشن کمیشن ہی فیصلہ کرے گا کہ الیکشن کس تاریخ کو ہونا ہے۔
خیبرپختونخواکے حوالے سے کنوردلشاد نے کہا کہ وہاں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کی کارروائی کے بعد صورتِ حال گھمبیر ہے۔ وہاں امن و امان کی صورتِ حال ہے۔لیکن آئین کے مطابق گورنر اگر تاریخ دینے سے انکار بھی کریں تو الیکشن کمیشن بااختیار ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرسکتا ہے۔
الیکشن کے التوا کی شکایت کے حوالے سے حامد میر کا کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 105 اور 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن کروانا ہے۔یہ الیکشن آپ نے کروانا ہے اور اگر آپ نہیں کراتے تو آئین شکنی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں آمر آئین توڑتے تھے۔ اب اگر پارلیمان کے اندر موجود لوگ آئین توڑیں گے اور الیکشن نہیں کروائیں گے تو وہ آئین شکنی کے مرتکب ہوں گے۔