یورپ کے تمام فلمی میلوں میں انعام جیتنے والے ،معروف ایرانی فلم ساز جعفر پناہی، نے اپنی مسلسل نظربندی کے خلاف بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ وہ گزشتہ چھ ماہ سے جیل میں بند ہیں۔یہ بات ، جمعرات کو ان کی اہلیہ کی طرف سے شائع ہونے والے ایک بیان میں کہی گئی۔
پناہی نے اپنی فلم ’’دی سرکل‘‘ کے لیے 2000 میں وینس فلم فیسٹیول میں گولڈن لائن ایوارڈ جیتا۔ 2015 میں، انہوں نے ’’ٹیکسی تہران‘‘کے لیے برلن میں گولڈن بیئر جیتا، اور 2018 میں انہوں نے ’’تھری فیسز‘‘ کے لیے کانز میں بہترین اسکرین پلے کا انعام جیتا تھا۔
پناہی کو ستمبر میں شروع ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں سے بہت پہلے ،جولائی میں گرفتار کیا گیا تھا ،جنہوں نے موجودہ حکومت کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔
گزشتہ ماہ یہ توقع کی جارہی تھی کہ عدلیہ ان کی رہائی کا حکم دے سکتی ہے لیکن وہ ابھی تک تہران کی اوین جیل میں قید ہے
پناہی نے ایک بیان میں کہا کہ انہوں نے بدھ سے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔
پناہی نے کہا ہے کہ ایران میں پھنسے ہوئے بہت سے لوگوں کی طرح، میرے پاس اپنی اس عزیز ترین ملکیت -- اپنی زندگی کے خلاف ایک غیر انسانی رویے پر احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک کہ میرا بے جان جسم قید سے آزاد نہیں ہو جاتا ،’’میں اسی حالت میں رہوں گا۔
62 سالہ پناہی کو 2010 میں موجودہ حکومتی نظام کے خلاف پروپیگنڈے کے جرم میں چھ سال کی سزا سنائی گئی تھی ۔انہیں 11 جولائی کو گرفتار کیا گیا تھا ۔پناہی کی گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب وہ ساتھی فلم ڈائریکٹر محمد رسولوف کی عدالتی سماعت میں شریک تھا، جنہیں چند روز قبل حراست میں لیا گیا تھا۔
رسولوف کو خرابیء صحت کے باعث دو ہفتے کی چھٹی کے بعد 7 جنوری کو جیل سے رہا کیا گیا تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب بھی جیل سے باہر ہیں۔
15 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے پناہی کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ مقدمے کی سماعت کا حکم دیا، جس سے ان کی قانونی ٹیم میں امید پیدا ہوئی کہ شاید انہیں رہا کر دیا جائے۔
معروف اداکارہ ترانہ علیدوستی، جنہوں نے اسکارف پہنے بغیر اپنی تصاویر شائع کی تھیں، انہیں بھی حراست میں لیا گیا تھا لیکن انہیں تقریباً تین ہفتے تک حراست میں رکھنے کے بعد جنوری کے اوائل میں رہا کر دیا گیا تھا۔
سینما کی شخصیات ،ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہیں جنہیں ایران نے 16 ستمبر کو 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے گرفتار کیا تھا۔
مہسا امینی کو خواتین کے لیے لباس کے سخت ضابطے کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔جہاں مبینہ طور پر پولیس کی حراست میں اس پر تشدد کیا گیا اور جب اسے اسپتال لے جایا گیا تو اس کی موت واقع ہوگئی۔
پولیس ایسے کسی تشدد سے انکار کرتی ہے مگر اس کی موت کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے پورے ملک میں پھیل چکے ہیں جن پرقابو پانے کے لیے انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایرانی حکمران 19 ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کر چکے ہیں جب کہ ان مظاہروں میں تشدد کے واقعات میں 500 سے زیادہ ہلاکتیں بھی رپورٹ ہوئی ہیں۔
ایرانی حکومت لوگوں کو مظاہروں میں شرکت سے باز رکھنے کے لیے چار نوجوانوں کو پھانسی کی سزا دے چکی ہے جب کہ انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ مزید ایک سو افراد پر ایسی دفعات کے تحت مقدمے چلائے جا رہے ہیں جن میں انہیں موت کی سزا ہو سکتی ہے۔
خبر کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔