رسائی کے لنکس

شکیل آفریدی پر ساہیوال جیل میں تشدد کا الزام، تحقیقات کے لیے عدالت سے رجوع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بظاہر اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی نشاندہی میں امریکہ کی مدد اور شدت پسند تنظیم کی مبینہ معاونت کےعائدہ کردہ الزام میں گرفتار شکیل آفریدی کے اہلِ خانہ نے الزام لگایا ہے کہ ان پر جیل میں تشدد کیا گیا ہے۔

قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے قبل مئی 2018 میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کے وکلا نے قبائلی انتظامیہ کے فیصلوں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔ البتہ یہ اپیل بدستور زیرِ التوا ہے۔

شکیل آفریدی کی اپیل پر آخری بار سماعت دو دسمبر 2022 کو پشاور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی تھی، جس میں اس اپیل کے قابلِ سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا البتہ یہ فیصلہ جاری نہیں ہوا۔

شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بھائی شکیل آفریدی پر ساہیوال جیل میں تشدد کیا گیا ہے۔

جمیل آفریدی کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے حکام کے فیصلوں کے خلاف شکیل آفریدی کی اپیل کئی برس سےپشاور ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ جب وہ 28 جنوری 2023 کو اپنے بھائی شکیل آفریدی سے پنجاب کی ساہیوال جیل میں ملے تھے تو انہوں نے بتایا کہ 27 دسمبر کی شام جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کی موجودگی میں سات وارڈنز نے سیل کے اندر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور کے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔

ان کے بقول تشدد کے بعد ان اہلکاروں نے ان سے کمبل، جرسی اور دیگر گرم کپڑے چھین کر انہیں سردی میں ایک چادر تک محدود کر دیا تھا جب کہ 24 گھنٹے بعد یہ اشیا ان کے حوالے کی گئیں۔

پنجاب کے جیل حکام کا ڈاکٹر شکیل آفریدی پر مبینہ تشدد کے بارے میں مؤقف نہیں مل سکا۔ساہیوال کی جیل کے ٹیلی فون پر موجود ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بارے میں وہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکتے۔ شکیل آفریدی کے اہلِ خانہ کی جانب سے الزامات کی پہلے بھی حکام تردید کرتے رہے ہیں۔

شکیل آفریدی کے بھائی جمیل آفریدی نے کہا کہ انہوں نے وکیل سے رابطہ کرکے شکیل آفریدی پر ہونے والےتشدد کے بارے میں پشاور ہائی کورٹ میں بھی درخواست جمع کرا دی ہے۔

شکیل آفریدی کے وکلا پینل میں شامل وکیل عارف خان ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے شکیل آفریدی پر تشدد کی تحقیقات کے لیے درخواست عدالت میں جمع کرا دی ہے۔

جمیل آفریدی کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے اب تک یہ فیصلہ بھی نہیں کیا کہ سابقہ قبائلی علاقوں کی انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف ڈاکٹر شکیل آفریدی کی اپیل قابلِ سماعت ہے یا نہیں ۔

انہوں نے کہاکہ پشاور ہائی کورٹ میں ان کی اپیل کی سماعت آخری بار دو دسمبر 2022 کو ہوئی تھی۔

شکیل آفریدی کے اہلِ خانہ کے مطابق وہ ان کے پہلے وکیل کے قتل کے بعد موزوں وکیل کی تلاش میں ہیں البتہ اب تک وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

خیال رہے کہ شکیل آفریدی کے مقدمے کی پیروی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کر رہے تھے البتہ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کو گزشتہ ماہ پشاور ہائی کورٹ کے بار روم میں قتل کر دیا گیا تھا۔

جمیل آفریدی نے بتایا کہ لطیف آفریدی سے قبل سمیع اللہ آفریدی شکیل آفریدی کے مقدمے کی پیروی کر رہے تھے البتہ انہیں بھی 2015 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت بھی مقدمے کی پیروی اور سماعت متاثر ہوئی تھی۔

نیو یارک میں اسامہ بن لادن سے منسوب گیلری کا افتتاح
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:12 0:00

واضح رہے کہ لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے قتل کے الزام میں مقتول سمیع اللہ ایڈووکیٹ کے بیٹے کو بار روم سے اسی وقت گرفتار کیا گیا تھا۔

جمیل آفریدی کا کہنا تھا کہ سمیع اللہ آفریدی کے بعد میں لطیف آفریدی اور قمر ندیم ایڈووکیٹ نے معاملے کو سنبھالا البتہ قمر ندیم ایڈووکیٹ امریکہ منتقل ہو گئے اور اب لطیف آفریدی ایڈووکیٹ کے قتل کے بعد حالات خراب ہوگئے ہیں۔

شکیل آفریدی کو پاکستان کے خفیہ اداروں نے 23 مئی 2011 کو اٹک ضلع کی حدود سے گرفتار کیا تھا۔ بعد ازاں ایک برس کے بعد انہیں قبائلی علاقے خیبر کی تحصیل باڑہ کے اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کے دفتر میں پیش کیا گیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ شکیل آفریدی نے کالعدم تنظیم لشکر اسلام کی معاونت کی ہے۔ اس جرم میں ان کو 33 سال قید اور تین لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی۔

شکیل آفریدی کی سزا میں پشاور کے اس وقت کے کمشنر صاحبزادہ محمد انیس نے 10 سال کی تخفیف کی تھی۔صاحبزادہ محمد انیس اکتوبر 2013 میں اسلام آباد میں آگ لگنے کے ایک پراسرار واقعے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

ڈاکٹر شکیل آفریدی کو بظاہر ایک کالعدم شدت پسند تنظیم ’لشکر اسلام‘ سے منسلک جنگجوؤں کا علاج کرنے کے الزام میں سابقہ ایف سی آر قانون کے تحت گرفتار کرکے سزا دی گئی تھی۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حکام ان پر ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ کی نشاندہی کرنے میں امریکہ کے خفیہ ادارے سے تعاون کا الزام لگاتے ہیں اور یہ کہ اس مقصد کے لیے ڈاکٹر شکیل آفریدی نے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کی مہم کو استعمال کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG