رسائی کے لنکس

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات نو اپریل کو کرائے جائیں: صدر علوی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔

صدر عارف علوی کے مطابق صوبوں میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد آئین اور قانون الیکشن کے لیے 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔

ان کے بقول وہ بحیثیت صدر آئین کی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اپنا آئینی اور قانونی فرض ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

اعلامیے میں الیکشن کمیشن کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ ان دونوں صوبوں میں عام انتخابات کا پروگرام جاری کرے۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے تحت آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف لیا۔

صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ کسی بھی عدالت کی جانب سے دونوں صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے کوئی حکمِ امتناع موجود نہیں ہے لہٰذا انتخابی قانون کے سیکشن 57 -ون کے تحت صدر کے اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

عارف علوی نے سرکاری اعلامیے میں مزید کہا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر الیکشن کی تاریخ کے اعلان کی آئینی ذمہ داری ادا نہیں کر رہے جب کہ الیکشن کمیشن بھی انتخابات کرانے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا۔ دونوں آئینی دفاتر ’پہلے آپ، نہیں پہلے آپ‘ کی طرح گیند ایک دوسرے کے کورٹ میں پھینک رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے تاخیر اور آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا سنگین خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔

صدر عارف علوی کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن پہلے ہی آئینی عہدیداروں کے نام اپنے مختلف خطوط میں انتخابات کی ممکنہ تاریخوں کا اشارہ دے چکا ہے۔ ان خطوط میں 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ظاہر ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا سنجیدہ عمل شروع کیا گیا البتہ الیکشن کمیشن نے اجلاس میں شرکت سے معذرت کی ہے۔

ان کے بقول ’’اسی لیے حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے لیے 9 اپریل کی تاریخ کا اعلان کر رہا ہوں۔‘‘

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے منگل کو ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے گا۔

مقامی میڈیا کے مطابق الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ کمیشن کو صدر کی جانب سے خط موصول نہیں ہوا۔ خط ملنے کے بعد الیکشن کمیشن قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے وسط میں تحریکِ انصاف نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم اور اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں۔

تحریکِ انصاف کی جانب سے ملک میں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے البتہ مرکزی حکومت کی جانب سے یہ مطالبہ تسلیم نہ ہونے پر اس نے سیاسی حکمتِ عملی کے طور پر دونوں اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں۔

اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنروں کو خطوط ارسال کیے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرانے کا پابند ہے، آرٹیکل 105 کے تحت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنا گورنر کا آئینی اختیار ہے۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے معاملے پر تاریخیں بھی تجویز کی تھیں۔ کمیشن کے مطابق آئین کے تحت پنجاب میں 13 اپریل اور خیبرپختونخوا میں 15 سے 17 اپریل کے درمیان انتخابات ہو سکتے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایوانِ صدر اور الیکشن کمیشن کا دفتر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

لاہور سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ضیاء الرحمٰن کے مطابق الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کُنور دل شاد احمد کہتے ہیں کہ بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر صدر ڈاکٹر عارف علوی اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کنور دل شاد احمد کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 105 کہتا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ متعین کرنے سمیت دیگر تمام اختیارات گورنر کے پاس ہیں۔ اِسی طرح اگر قومی اسمبلی تحلیل ہو جائے تو صدر قومی اسمبلی کے انتخابات کرانے اور تاریخ دینے سے متعلق ہر مشاورت کے مجاز ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہاں صدرِ مملکت کا الیکشن کمیشن کو بار بار خط لکھنا اور دباؤ ڈالنا درست نہیں تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ صدر کے عہدے اور شخصیت سے یہ تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے رکن ہیں۔

سابق وزیرِ قانون اور آئینی ماہر ڈاکٹر خالد رانجھا سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں انتخابات کے ہونے سے تمام فریقین ڈرے ہوئے ہیں جو لوگ حکومت میں ہیں وہ بھی ڈرے ہوئے ہیں اور جو حکومت سے باہر ہیں وہ بھی خوف محسوس کر رہے ہیں۔ جو لوگ حکومت میں ہیں اُن کا یہ خیال ہے کہ اگر انتخابات ہوئے تو تحریکِ اںصاف کی حکومت آ سکتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آئین میں یہ تو لکھا ہے کہ انتخابات 90 روز میں ہوں گے لیکن اِس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ اتنخابات کی تاریخ کا اعلان گورنر کرے گا یا صدر یہ اعلان کر سکتا ہے۔

اُن کے بقول یہ وہ معاملات ہیں جن پر ہر کسی نے اپنے اپنے بہانے بنائے ہوئے ہیں تا کہ عدالتی احکامات پر بھی عمل درآمد نہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی ادارے سے بات کر سکتا ہے۔ وہ کسی بھی آئینی ادارے کو بلا سکتا ہے۔

ان کے مطابق انتخابات صوبائی سطح پر ہونے ہیں اِس لیے ساری بات گورنر کے پاس چلی جاتی ہے۔

آئینی اور قانونی ماہر حامد خان کہتے ہیں کہ صدر کسی کو بھی مشاورت کے لیے بلا سکتے ہیں۔ آئین کے تحت مشاورت کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا وہ حکم بھی دے سکتے ہیں یا نہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے صدر ہر معاملے پر نظر رکھ سکتا ہے کہ کہیں آئین کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ صدر اِس حد تک تو حکم دے سکتے ہیں کہ جو آئین میں لکھا ہے اُس پر عمل کیا جائے۔ صدر انتخابات سے متعلق مشاورت کے بجائے حکم جاری کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG