پاکستان کے سیاسی حلقوں میں مسلم لیگ(ن) کی چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مریم نواز کی عدلیہ مخالف حالیہ تقریر موضوعِ بحث ہے۔ اس تقریر میں انہوں نے سپریم کورٹ کے چار ججز اور ایک سابق جرنیل کو پاکستان کی بدحالی کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔
مریم نواز ان دنوں اپنی جماعت کے تنظیمی دوروں پر ہیں۔ گزشتہ ہفتے سرگودھا میں پارٹی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے گند کا ٹوکرا پھینک دیا تو ججز نے اسے اٹھا لیا۔
اس موقع پر انہوں نے پانچ افراد کی تصاویر بھی اسکرین پر چلوائیں جن میں سپریم کورٹ کے دو موجودہ ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی سمیت دو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف اور ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ جنرل فیض حمید شامل تھے۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ نواز شریف کے خلاف سازش میں پانچ افراد کا ٹولہ شامل تھا۔ یہی پانچ کا ٹولہ پاکستان کی بدحالی کا ذمے دار ہے اور جنرل(ر) فیض حمید کو انہوں نے اس ٹولے کا سرغنہ قرار دیا۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے ججز مخالف نئے بیانیے کے فائدے کے ساتھ نقصانات بھی ہو سکتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ عدلیہ اس تنقید کو کیسے لیتی ہے۔
تجریہ کار اور سینئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ نواز شریف کا بیانیہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے خلاف تھا لیکن اب مسلم لیگ(ن) کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک طرح کے مذاکرات ہو گئے ہیں اور انہیں حکومت مل گئی ہے جس کے بعد ان کا بیانیہ عدلیہ مخالف ہے۔
ان کے بقول اب جو کچھ بھی ان کے بیانیے میں نظر آئے گا وہ ججز کے خلاف ہوگا۔ نواز شریف کےمقدمات کے خلاف ہوگا۔ ان کو سزا دینے کے خلاف ہوگا۔
ججز کو نشانے پر رکھنے کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب مریم نواز نے اپنی تقریر کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر تنقید کی اور کہا کہ عوام کو پتا ہے کہ سپریم کورٹ میں بینچ فکسنگ ہو رہی ہے۔ آپ کو کیوں نظر نہیں آرہا؟ آپ گورنر کی ذمے داری جانچنے بیٹھ گئے لیکن اپنی بھی ذمے داری پوری کریں اور غیرجانب دار بینچ بنائیں۔
مریم نواز نے یہ تقریر سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاخیر پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کرنے والے نورکنی بینچ میں سے چار ججز کے علیحدہ ہونے سے پہلے کی تھی۔
سہیل وڑائچ کے خیال میں مسلم لیگ(ن) اب اسی بیانیے کو لے کر چلے گی اور اگر میاں نواز شریف وطن واپس آ بھی جاتے ہیں تو اسی بیانیے کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ان کے بقول، ن لیگ حکومت میں رہتے ہوئے عوام سے کوئی وعدے نہیں کرے گی لیکن ان کے رہنما اپنے دکھڑے ضرور سنائیں گے۔
پاکستان میں سیاسی اور جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والی غیرسرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرینسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ مریم نواز کی تقریر کےصحیح یا غلط ہونے کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ البتہ سیاسی پیغام رسانی کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔
ان کے بقول پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو عدلیہ سے کچھ شکایات ہیں جس میں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانا اور پھر انہی کی جماعت سے تاحیات بے دخل کرنا شامل ہے۔ دوسرا یہ کہ سیاسی پیغام رسانی کے حوالے سے مریم نواز نے عوام میں اپنی جماعت کو مقبول بنایا ہے۔
احمد بلال کے بقول پاکستان پیپلزپارٹی کو بھی اسی طرح کچھ شکایات عدلیہ سے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ سیاسی لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسا بیانیہ اپنایا جائے جو عوام میں مقبول ہو۔اس سے قبل مسلم لیگ(ن) نے 'ووٹ کو عزت دو' کا مزاحمتی بیانیہ اختیار کیا تھا۔ مزاحمتی بیانیے پاکستان کے عوام میں مقبول ہوتے ہیں جس کی تعریف کی جاتی ہے اور اسے جرات مندانہ سمجھا جاتا ہے۔
ان کے بقول مریم نواز نے سرگودھا میں جو تقریر کی وہ ایک مزاحمتی قسم کا بیانیہ تھا۔ انہوں نے کھلے عام حاضر ججز کے نام لے کر ان پر نہ صرف تنقید کی بلکہ ان کی تصاویر بھی دکھائیں جو عوام میں مقبولیت کے اعتبار سے ان کے لیے مفید حکمتِ عملی ہوسکتی ہے۔
احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ جو لوگ مسلم لیگ(ن) سے ہمدردی رکھتے ہیں ان کو کوئی ایسی شخصیت نہیں مل رہی تھی جو ایک واضح پوزیشن اختیار کرتی۔ اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مریم نواز نے لہجہ سخت کرنے کی حکمتِ عملی بنائی ہے۔
البتہ تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ ابھی ایسا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ مسلم لیگ(ن) کوئی نیا بیانیہ اپنانا چاہ رہی ہے۔ ان کےخیال میں مریم نواز نے جو کہا وہ سب نے سنا ہے، عوامی اجتماعات میں سیاسی لوگ بہت سی باتیں کرتے ہیں اور اس سے قبل نواز شریف بھی اپنی تقاریر میں کم وبیش یہی باتیں کر چکے ہیں۔
ان کے بقول نواز شریف نے فوج پر بطورِ ادارہ بات کرنے کے بجائے دو افراد کا نام لے کر بات کی تھی۔ اب عمران خان بھی اُن دو افسران میں سے ایک کے بارے میں یہی باتیں کرتے ہیں۔
کیا مسلم لیگ(ن) کا بیانیہ وقتی ہے؟
مسلم لیگ(ن) نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل 'ووٹ کو عزت دو' کا بیانیہ اپنایا تھا جو بعض مبصرین کے مطابق سیاسی مصلحت کے تحت اب اس سیاسی جماعت کا مرکزی نعرہ نہیں رہا۔
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں وقت اور حالات کے مطابق بیانیے اور نعرے بناتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ان کے مطابق مسلم لیگ(ن) کے نئے بیانیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بیانیہ بھی حالات کے مطابق بنایا گیا ہے۔ اگر عدالت سے ان کے حق میں فیصلے آتے تو یہ بیانیہ نہیں ہوتا۔
افتخار احمد کا خیال ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور عدلیہ پر تنقید میں کوئی واضح فرق نہیں۔یہ دونوں بیانیے ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر عدلیہ اسے اپنی توہینِ سمجھتی ہے تو قانون اپنا راستہ لے گا۔ عدلیہ کو اپنے کردار پر غور کرنا چاہیے۔ کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں ہے۔
ان کے بقول 17 سے 18 افراد پاکستان کے معاملات کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔اگر پاکستان کے نمائندے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غلط فیصلہ کر رہے ہیں تو وہ تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ بھی رکھیں۔
پلڈاٹ کے صدر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں اس وقت انتخابات کی تیاری کررہی ہیں۔ کیوں کہ اب صرف انتخابات کی تاریخ طے ہونا ہی باقی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات بھی ہونے ہیں۔ لیکن صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جلدی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے جو بیانیے اپنائے جا رہے ہیں یہ الیکشن کے اندر ووٹر کو متاثر کرنے اور اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہی بنائے جا رہے ہیں۔
عدلیہ مریم نواز کی تقریر پر ردِ عمل دے سکتی ہے؟
سہیل وڑائچ کی رائے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ مریم نواز کے بیانیے پر عدالتِ عظمیٰ کس طرح اپنا ردِ عمل دکھاتی ہے۔ ان کے بقول اگر عدالت نے یہ بیانیہ یا تقریر اپنی مخالفت کے طور پر دیکھا تو ظاہر ہے کہ لوگ بھی قائل ہوں گے کہ مسلم لیگ(ن) کو انصاف نہیں مل رہا اور جب انصاف نہیں ملے گا تو اس بیانیے میں مزید طاقت آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی عدلیہ مخالف بیانیہ اپنایا تھا۔ بقول ان کے اگر مسلم لیگ ن اپنے نئے بیانیے کو صحیح طریقے سے استعمال کرے تو اِس میں جان ہے۔البتہ اگر عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں کسی کی طرف اپنا جھکاؤ نہیں دکھایا تو اس بیانیے کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔
پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کی رائے میں مسلم لیگ(ن) نے مریم نواز کے توسط سے عدلیہ سے متعلق جو نیا بیانیہ تشکیل دینا شروع کیا ہے وہ قدرے خطرناک ہے۔ ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ مکمل طور پر نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی، اسٹیبلشمنٹ پر تنقید عمران خان کو ان کے قریب کرسکتی ہے۔
احمد بلال محبوب کے مطابق یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کوئی بات نہیں کر رہی ہیں لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کے بعض سابق عناصر بالخصوص سابق ڈی جی آئی ایس آئی پر تنقید ضرور کر رہی ہیں۔ مریم نواز نے اُن کو اور جج صاحبان کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کے منفی اثرات نسبتاً کم ہو سکتے ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ایسی صورت میں اگر عدلیہ قانون کا راستہ اپناتی ہے اور توہینِ عدالت کا مقدمہ چلتا ہے تو ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی کوئی مقدمہ چلتا ہے تو سیاست دانوں کی مقبولیت بڑھتی ہے۔لہذا مریم نواز کے بیانیے میں نقصان کا پہلو تو ہے لیکن فائدے کا امکان زیادہ ہے۔