رسائی کے لنکس

پاکستان سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کرے: اقوامِ متحدہ


سابق سینیٹر عثمان کاکڑ ۔ فائل فو ٹو
سابق سینیٹر عثمان کاکڑ ۔ فائل فو ٹو

اقوامِ متحدہ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ دو برس قبل پراسرار حالات میں انتقال کر جانے والے سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کرے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر عثمان کاکڑ جون 2021 کو کوئٹہ میں پراسرار حالات میں شدید زخمی حالت میں پائے گئے تھے اور اب تک یہ واضح نہیں کہ وہ کیسے زخمی ہوئے تھے جس کے چند روز بعد ہی ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

عثمان کاکڑ بلوچستان کے عوام کے حقوق اور قوم پرست سیاست کی علامت سمجھے جاتے تھے جب کہ سینیٹ آف پاکستان میں بھی وہ ریاستی اداروں پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے اُن کی پراسرار موت کی تحقیقات کے لیے خط گزشتہ برس دسمبر میں لکھا گیا تھا جسے اب عام کیا گیا ہے۔

مذکورہ خط میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ ان کی موت کسی حملے کے نتیجے میں بھی ہوسکتی ہے۔ عثمان کاکڑ فوج کے کردار اور اس کی پالیسیوں کے سخت ناقد سمجھے جاتے تھے اور وہ کھل کر حکومتی ایوانوں میں اس کا اظہار کرتے رہے تھے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی ہو یا پھر لاپتا افراد سے متعلق تلخ باتیں عثمان کاکڑ کی آواز سینیٹ میں ہمیشہ سے اہمیت کی حامل رہی ہے ۔

پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا کے سال 2015 سے 2021 تک رکن رہنے والے عثمان کاکڑ دو سال قبل کوئٹہ میں واقع گھر میں مبینہ طور پر حادثے میں سر پر گہری چوٹ آنے سے شدید زخمی ہوئے ۔ کچھ روز کے لیے کوئٹہ اور پھر کراچی کے اسپتالوں میں زیر علاج رہنے کے بعد وہ 59 سال کی عمر میں انتقال کرگئے تھے۔


اگرچہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عثمان کاکڑ پر تشدد کا کوئی بھی نشان ثابت نہیں ہوا لیکن ان کے خاندان اور ان کی جماعت پی کے میپ اور سول سوسائٹی کے ارکان ان پر قاتلانہ حملے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔

ان دعووں کو بولان میڈیکل یونی ورسٹی کی اس رپورٹ کے بعد مزید تقویت ملی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ عثمان کاکڑ کے ابتدائی سی ٹی سکین کے مطابق سر پر چوٹ لگنے سے پہلے ان کے بلڈ پریشر، برین ہیمرج یا کسی اور بیماری کا شکار ہونے کے کوئی آثار نہیں ملے تھے۔

پارٹی رہنما یہ بھی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کی موت سے قبل انہیں متعدد بار دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔ جب کہ سینیٹ کے ایوان میں اپنی آخری تقریر کے دوران بھی عثمان کاکڑ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ان پر دباو ڈالا جارہا ہے کہ وہ غیر جمہوری قوتوں پر تنقید بند کردیں۔ اس تقریر میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں یا ان کے خاندان کو کچھ ہوا تو اس کی ذمے داری ملک کے خفیہ اداروں پر ہو گی۔

اقوام متحدہ کے خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے عثمان کاکڑ کی موت کے بارے میں موصول ہونے والی سرکاری معلومات غیر واضح ہیں۔ اس لیے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ساتھ غیر سرکاری تنظیم سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کرے۔

عثمان کاکڑ کے قتل کے ساتھ ایک اس فہرست کی بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے فیس بک پر شائع کی گئی تھی۔

اس فہرست میں صحافی گل بخاری، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے فضل الرحمان آفریدی اور سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے نمائندوں کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں مزید کہاگیا ہے کہ یہ دھمکیاں ان افراد کو پاکستان میں مقیم پشتون اقلیت کے انسانی حقوق کے دفاع اور پاکستان میں جبری گمشدگیوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ پر دی گئی تھیں۔ تاہم حکومت پاکستان کی جانب سے اب تک اس حوالے سے کوئی جواب جمع نہیں کرایا گیا ہے اور نہ اس خط پر کوئی بھی مؤقف سامنے آیا ہے۔

خیال رہے کہ عثمان کاکڑ کی کی موت کے بعد، محکمہ داخلہ بلوچستان نے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل دو رکنی جوڈیشل انکوائری کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم عثمان کاکڑ کے خاندان اور ان سے وابستہ افراد کی جانب سے عدم اعتماد پر انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہونے سے انکار کے بعد کمیشن کسی نتیجے پر پہنچنے کے بغیرہی ختم کر دیا گیا تھا۔

اس عدالتی انکوائری کی تقرری کے بعد مزید کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں اور نہ ہی مقدمہ درج کیا گیا۔ جب کہ دوسری جانب اقوام متحدہ کے نمائندوں کا دعویٰ ہے کہ عثمان کاکڑ سے وابستہ افراد کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔

خیال رہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی ادارے ماضی میں اس نوعیت کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ ہر طرح کی تحقیقات میں معاونت کے لیے تیار ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن اقوامِ متحدہ کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے: شریک چیئرمین

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک چیئرمین اسد بٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی جانب سے عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ عثمان کاکڑ کی انتہائی پُراسرار موت کی تحقیقات شفاف اور غیر جانب دار اندازمیں کی جائیں تاکہ ان کے خاندان کو انصاف مل سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عثمان کاکڑ کے خاندان کو انکوائری کمیشن کی کارروائی پر اعتماد نہ ہونے کے بعد حکومت کو تحقیقات کے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا اس کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کمیٹیوں یا خود سول سوسائٹی کو شامل کرکے تحقیقات کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

رپورٹ پر اپنے تبصرے میں عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال کاکڑ کا کہنا ہے کہ ان کے والد پشتون افغانوں کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے اپنے خاندان اور مظلوم قومیتوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے سب سے مدد کی درخواست کی ہے۔


"تحریک طالبان کی مبینہ ہٹ لسٹ سنگین معاملہ ہے"

سابق سینیٹر اور پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے امید ظاہر کی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جانب سے مطالبے کے بعد عثمان کاکڑ کی پراسرار حالات میں موت اور قتل کی فہرست کی غیر جانب دارانہ اور شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔

وائس آف امریکہ کو بھیجے گئے سوالات کے جواب میں فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان کی مبینہ ہٹ لسٹ میں ان کا نام شامل ہونا کافی سنگین معاملہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ انہیں پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے ان کی قید سے رہائی کے لیے 10 کارکنوں کو قتل کرنے کو کہا گیا تھا۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں سینیٹر عثمان کاکڑ کا نام بھی شامل تھا اور عثمان کاکڑ کی واقعی پراسرار حالات میں موت ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے یہ معاملہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلا۔

اقوامِ متحدہ کے نمائندوں کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے جہاں تفصیلی جواب کا انتظار رہے گا وہیں اس ضمن میں تمام ضروری عبوری اقدامات بھی کیے جائیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG