افغانستان کے دارالحکومت کابل سمیت ملک کے دیگر حصوں میں مدارس میں تعلیم کے لیے آنے والی بچیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اگست 2021 میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغانستان میں مذہبی تعلیم کے مدارس کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
تاہم بچیوں کی مدارس میں بڑھتی تعداد کی بنیادی یہ وجہ یہ ہے کہ طالبان حکومت نے ان پر سیکنڈری تعلیم کے دروازے بند کردیے ہیں۔
مدارس میں بچیوں کو ریاضی، سائنس اور ادب وغیرہ کے بجائے صرف ناظرہ قرآن پڑھایا جاتا ہے۔ ان بچیوں کی اکثریت عربی نہیں جانتی۔ جو طالبات ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھنے کی خواہش مند ہوتی ہیں ان کی تعلیم علیحدہ ہوتی ہے اور انہیں مذہبی عالم مقامی زبان میں ترجمہ و تفسیر پڑھاتے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ نے کابل اور قندھار کے تین مدارس کا دورہ کیا جہاں مذہبی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد گزشتہ ایک برس میں دگنی ہوچکی ہے۔
تعلیم پر پابندی کی صورتِ حال
طالبان حکومت روایتی اور سخت مذہبی تعبیرات کو قانون کا درجہ دیتی ہے۔ طالبان کے امیر ہبت اللہ اخوندزادہ اور ان کے قریبی مذہبی علما کا حلقہ بچیوں اور خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ اس بارے میں وہ ایک حکم نامہ بھی جاری کرچکے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ہبت اللہ اخوندزادہ مذہبی تعلیم کے لیے ہزاروں نئے مدارس تعمیر کرانے کا حکم بھی جاری کرچکے ہیں۔
طالبان حکام بچیوں کو اسکول اور اعلیٰ تعلیم تک رسائی نہ دینے کے لیے کئی عذر پیش کرتے ہیں۔ ان میں لڑکے اور لڑکیوں کی تدریس کے لیے علیحدہ علیحدہ کمرۂ جماعت یا پردے کا انتظام اور اسلامی یونیفارم وغیرہ کا انتظام نہ ہونے کا عذر بھی پیش کیا جاتا ہے۔
کئی تعلیمی اداروں میں یہ انتظام پہلے سے موجود بھی ہے لیکن پھر بھی بچیوں کی تعلیم کا سلسلہ بحال نہیں ہورہا تھا۔ طالبان حکومت کا اصرار ہے کہ بچیوں کے اسکول بالآخر کھول دیے جائیں گے۔
تعلیم ان بنیادی مطالبات اور نکات میں شامل ہیں جو افغانستان کی طالبان حکومت اور بین الاقومی برادری کے درمیان ڈیڈ لاک کا باعث ہیں۔مسلم ممالک سمیت عالمی برادری طالبان حکومت کی خواتین کی تعلیم پر پابندی کی مذمت کرتے ہیں۔
طالبان حکومت کو شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے اور امدادی تنظیموں کے مطابق ملک کی نصف سے زائد آبادی بھوک اور افلاس کا شکار ہے۔ ان مسائل کے ساتھ ساتھ طالبان حکومت سفارتی تنہائی کا بھی شکار ہے کیوں کہ تاحال دنیا کے کسی ملک نے اسے تسلیم نہیں کیا۔
مدرسے کی تعلیم اور ہنر
مدارس کی طرزِ تعلیم کی افادیت پر بھی کئی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ بعض ماہرین کے نزدیک مدارس میں طلبہ کو روزگار کے لیے درکار ہنر کی تربیت نہیں دی جاتی۔
مقامی اسکالر عبدالباری مدنی کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں جدید تعلیم کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ افغانستان کو مسلم دنیا سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے اور اگر طلبہ پر جدید تعلیم کے دروازے بند رکھے جاتے ہیں تو یہ قوم سے بے وفائی کے مترادف ہوگا۔
دنیا میں کئی مدارس کو عسکریت پسندی سے بھی جوڑا جوتا ہے۔ طالبان کے کئی اہم رہنماؤں نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ اس مدرسے کو ’یونیورسٹی آف جہاد‘ بھی کہا جاتا ہے۔
صوبہ قندھار کے محکمۂ تعلیم میں اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ نعمت اللہ الفت کا کہنا ہے حکومت روز و شب اس بات پر غور کررہی ہے کہ مدارس کی تعداد میں کیسے اضافہ کیا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ مدارس کی تعداد میں اضافے کا مقصد یہ ہے کہ نئی نسل اچھے اخلاق اور تربیت کے ساتھ دنیا میں جائے۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔