پاکستان کے صدر عارف علوی اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کے درمیان خطوط کا تبادلہ جاری ہے جس میں دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر آئین شکنی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔وزیرِ اعظم کی طرف سے صدر کو لکھے جانے والے حالیہ خط میں وزیرِ اعظم نے صدر کو کہا کہ آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں ہے۔
وزیرِ اعظم نے صدر کو کہا ہے کہ صدر اور وزیرِ اعظم کے درمیان مشاورت کی آپ کی بات درست نہیں کیوں کہ آئین کے تحت صدر کابینہ یا وزیرِ اعظم کی تجویز کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے۔ صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک اس کا اطلاق ہے، نہ زیادہ نہ اس سے کم۔
میڈیا کو اتوار کو جاری ہونے والے خط میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کوسات نکات پر مشتمل پانچ صفحات کا جوابی خط تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے صدر مملکت کے مکتوب کو تحریکِ اںصاف کی پریس ریلیز قرار دیا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کہ میں کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریکِ انصاف کی پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے جوکہ یک طرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں اور آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں۔
خط میں وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ تین اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیرِ اعظم کی غیر آئینی ہدایت پر عمل کیا جب کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے سات اپریل کو غیر آئینی قرار دیا۔ آئین کے تحت بطور وزیرِ اعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے۔
خیال رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف گزشتہ برس اپریل میں اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جس پر پہلے تو اسپیکر نے اس تحریک کو مسترد کیا بعد ازاں اسمبلی تحلیل کر دی جس کو صدر نے منظور بھی کیا البتہ سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کی جہاں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد 174 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوئی اور تحریکِ انصاف کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ بعد ازاں شہباز شریف قومی اسمبلی سے وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔
صدر کو لکھے گئے خط میں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں۔ میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی لیکن اپنے خط میں آپ نے جو لب و لہجہ استعمال کیا اُس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے۔
جوابی خط میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ آپ نے نجی و سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، افراتفری پیدا کرنے کی کوششوں اور پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظرانداز کیا۔ پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔
خیال رہے کہ عارف علوی صدارت کا عہدہ سنبھالنے سے قبل تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل تھے۔
صدر کو لکھے گئے خط میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
وزیراعظم نے کہا کہ آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022 کی طرف دلاتا ہوں اور پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی۔ اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش تیز کرچکی ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے۔ رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید و بند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے۔لیکن افسوس بطور صدر آپ نے ایک بار بھی کسی واقعے پر آواز بلند نہ کی۔ آپ بطور صدر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی اِن خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یک طرفہ رویے کو ریکارڈ پر منکشف کر دوں۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن کی تاریخ دے دی۔ آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کر دیا۔ آپ نے دو صوبوں میں اسمبلیوں کی بدنیتی پر مبنی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی جب کہ یہ سب آپ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے کیا۔ صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی و قانونی مقصد کے لیے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے تحلیل کی گئیں اور آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کروانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہو جائے گا۔ یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آٹھ اکتوبر 2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے، تمام وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کو مہیا کی ہیں۔ الیکشن کرانے کی ذمہ داری آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپی ہے اور اس نے ہی طے کرنا ہے کہ شفاف و آزادانہ انتخابات کرانے کے لیے سازگار ماحول موجود ہے۔
وزیرِ اعظم نے عارف علوی کے خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے اپنے خط میں گزشتہ حکومت کے وفاقی وزرا کے جارحانہ رویے اور اندازِ بیان پر اعتراض نہیں کیا جب کہ گزشتہ حکومت کے وزراء مسلسل الیکشن کمیشن کے اختیار اور ساکھ پر حملے کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں، آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کار بند ہیں۔
خط کے آخر میں وزیرِ اعظم نے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طور پر منتخب حکومت کو کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے۔‘‘
صدر عارف علوی کا وزیرِ اعظم شہباز شریف کو خط
قبل ازیں صدر عارف علوی نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو 24 مارچ کو خط ارسال کیا تھا جس میں انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں روکنے پر زور دیا تھا۔
صدر عارف علوی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیرِ اعظم، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے۔
انہوں نے لکھا کہ ماضی قریب میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے بنیادی اور انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے واقعات کو اجاگر کیا ایسے واقعات کے تدارک اور اصلاح کے لیے انہیں وزیرِ اعظم کے نوٹس میں لانے کی ضرورت تھی۔
عارف علوی نے خط میں مزید لکھا تھا کہ آئین کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور صدر کو انتخابات کرانے کے لیےتاریخیں تجویز کرنے کا حکم دیا۔ گورنر خیبرپختونخوا کو بھی صوبائی اسمبلی کے لیے ٹائم فریم کے مطابق عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وفاقی اور نگراں حکومتوں نے متعلقہ محکموں کے سربراہان کو عام انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری تعاون فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کرنے کا کہا۔ آئین کے تحت وفاقی اور صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز کا فرض ہے کہ وہ کمشنر اور الیکشن کمیشن کو ان کے فرائض کی انجام دہی میں مدد کریں۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ’’میری رائے میں ایگزیکٹو اتھارٹیز اور سرکاری محکموں نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔‘‘
خط میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی سنگینی کا بھی ذکر کیا گیا جب کہ عارف علوی نے لکھا کہ سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔
صدر نے خط میں بنیادی حقوق سے متعلق آئین کے مختلف آرٹیکلز کا بھی حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ آئین کی واضح طور پر خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ایسے واقعات سے عالمی برادری میں پاکستان کا امیج خراب ہوا۔ پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتِ حال اور مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
عارف علوی نے مؤقف اختیار کیا کہ 2021 کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 180 ممالک میں سے 145 ویں نمبر پر تھا، 2022 میں پاکستان 12 درجے نیچے 157 ویں نمبر پر آ گیا۔ اس سال کے اقدامات سے اس انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی مزید نیچے آئے گی۔
عارف علوی نے لکھا کہ وزیرِ اعظم حکومت کے سربراہ ہونے کے ناطے آئین میں درج پاکستان کے ہر شہری کے انسانی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ وزیرِ اعظم متعلقہ حکام کو حقوق کی خلاف ورزی سے باز رہنے ، الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنے کی ہدایت کریں۔