پاکستان نے امریکی صدر جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے رواں ہفتے بلائی جانے والی جمہوریت کی سربراہی کانفرنس میں شریک نہ ہونےکا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے منگل کو جاری ہونے والے ایک بیان میں بلاواسطہ طور پر اس کانفرنس سے الگ رہنے کا اعلان کیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان جمہوریاقدار اور اصولوں کو فروغ دینے، انہیں مضبوط کرنے، انسانی حقوق اور بدعنوانی کے خلاف جنگ کو آگے بڑھانے کے لیے امریکہ اور سربراہی اجلاس کے دیگر شریک میزبانوں کے ساتھ دو طرفہ طور پر کام کرے گا۔
وزارتِ خارجہ نے اس بات کا اعلان ایسے وقت کیا ہے جب جو بائیڈن انتظامیہ نے رواں ہفتے شروع ہونے والی اس کانفرنس میں 120 سے زائد ممالک کو مدعو کر رکھا ہے۔ ان ممالک میں پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت بھی شامل ہے۔
'گلوبل ڈیکلریشین آف میئرز فار ڈیموکریسی' کے عنوان سے ورچوئل کانفرنس کا انعقاد امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) مشترکہ طور پر کر رہا ہے۔
اس کانفرنس میں جمہوری اقدار ، شہروں اور مقامی حکومتوں کے کردار اورعالمی سطح پر جمہوریت کے امور زیر بحث آئیں گے۔
وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد 29 اور 30 مارچ کو ہونے والی دوسری سربراہی کانفرنس برائے جمہوریت میں پاکستان کو مدعو کرنے پر امریکہ اور شریک میزبان ممالک کا شکر گزار ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنی دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔بائیڈن کی انتظامہ کے دور میں یہ تعلقات وسیع ہوئے ہیں اور اسلام آباد خطے میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان نے دسمبر 2021 میں صدر جو بائیڈن کی پہلی سربراہی کانفرنس برائے جمہوریت میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس وقت ایک تاثر تھا کہ پاکستان نے اس کانفرنس میں چین کے کہنے پر شرکت نہیں کی ، مگر پاکستان نے اس تاثر کو رد کردیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق کانفرنس میں پاکستان کے تین قریب دوست ممالک چین، ترکی اور سعودی عرب کو مدعو نہیں کیا گیا ہے لیکن تائیوان کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
لگ بھگ ایک سال کے دوران پاکستان اور امریکہ کے اعلیٰ سطح کے رابطوں کے باوجود رواں ہفتے ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کا شرکت نہ کرنے کو بعض مبصرین حیران کن سمجھتے ہیں۔
البتہ بعض مبصرین کے نزدیک یہ تاثر موجود ہے کہ پاکستان کی شرکت نہ کرنے کی وجہ ایک بار پھر شاید چین ہو کیوں کہ اس کانفرنس میں تائیوان کو مدعو کیا گیا ہے اور پاکستان 'ایک چین' کی پالیسی کی حمایت کرتا آرہا ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کہتے ہیں کہ اس کانفرنس میں پاکستان کے دو قریبی اتحادی ممالک چین اور ترکیہ کو مدعو نہ کرنے کی وجہ سے شاید پاکستان نے اس کانفرس سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا۔
اُن کے بقول پاکستان نے یہ عندیہ دیا ہے کہ پاکستان اپنے علاقائی اتحادی دوست ممالک کے ساتھ چلنا چاہتا ہے۔
ظفر جسپال کا ماننا کہ اس فیصلے سے پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت نہیں ملتی کہ پاکستان دنیا میں ابھرنے والی کمیپ پالیٹکس کا حصہ نہیں بنے گا اور غیر جانب دار رہے گا۔
پاکستان میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ کانفرنس سے الگ رہنے کی وجہ پاکستان کی داخلی سیاسی صورتِ حال اور انتخابات میں تاخیر کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور اس کانفرنس میں پاکستان کو ان سوالات کا بھی سامنا ہو سکتا تھا۔
لیکن پاکستان کے وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک متحرک جمہویت ملک ہے اور اس کی عوام جمہوری اقدار سے گہری وابستگی رکھتے ہیں اور پاکستان کی عوام نے تواتر کے ساتھ جمہوریت، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں میں اپنے اعتماد کو برقرار رکھا ہے۔
بعض مبصرین اس کانفرنس کو چین کے خلا ف جمہوری ممالک کی ایک گروپنگ بنانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں ۔
پاکستان کے سابق سفارت کار اشرف جہانگر قاضی کے خیال میں اسی لیے تائیوان کو مدعو کیا گیا ہے۔ لہذٰا پاکستان کے اس کانفرنس میں شرکت سے دور رہنے کا فیصلہ اس پس منطر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ پاکستان نے پہلی جمہوری سربراہی کانفرنس میں شرکت نہیں تھی اور اس بار بھی اس کانفرنس سے الگ رہنے کی وجہ سے ان کےبقول پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
دوسری جانب پاکستان کے پالیسی سازحلقے یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ خطے میں بھارت کا اسٹرٹیجک اتحادی ہے اس صورت میں پاکستان اور امریکہ اپنے تعلقات کو ایک خاص حد سے زیادہ وسعت نہیں دے سکتے ہیں۔