کابینہ ڈویژن نے 446 صفحات پر مشتمل توشہ خانہ کا 21 سال کا ریکارڈ اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیا ہے جس کے بعد پاکستان میں ایک مرتبہ پھر توشہ خانے سے تحائف وصول کرنے کی بحث شروع ہو گئی ہے۔
توشہ خانہ کا جنوری 2002ءسے دو مارچ 2023ء تک کا ریکارڈ جاری کیا گیا ہے۔ اس ریکارڈ کے مطابق سابق صدور اور وزرائے اعظم سمیت وزرا اور سرکاری افسران نےدرجنوں تحائف حاصل کیے۔بعض نے توشہ خانہ میں مطلوبہ رقم کی ادائیگی کے بعد تحائف حاصل کیے جب کہ بعض تحفے رقم کی ادائیگی کے بغیر ہی اپنے پاس رکھے گئے۔
ریکارڈ کے مطابق توشہ خانے میں آخری بار 24 اکتوبر 2022 کو وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو ملنے والے تین تحائف جمع کرائے گئے تھے جن کی مجموعی مالیت چار لاکھ سے زائد تھی۔
توشہ خانے سے قیمت ادا کر کے وصول کیا جانے والاآخری تحفہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے سیکیورٹی افسر مظہر علی غوری نے وصول کیا تھا۔انہوں نے اس تحفے کے لیے خزانے میں چھ ہزار روپے جمع کرائے تھے۔
توشہ خانے کا 21 سالہ ریکارڈ عام ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں کے کارکن مخالف جماعت کے رہنماؤں پر توشہ خانے سے تحائف لینے پر تنقید کر رہے ہیں جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)شریف خاندان اور حکمراں جماعت کے اتحاد پی ڈی ایم کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہے۔
پی ٹی آئی نے پیر کو ایک ٹوئٹ میں کہا کہ " ہم جانتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف پی ڈی ایم کی توشہ خانہ مہم کی کوئی بنیاد نہیں تھی کیوں کہ انہوں نے جو کچھ کیا وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا۔ لیکن ہم حیران ہیں کہ ان ٹی وی اینکرز کا کوئی ضمیر نہیں جنہوں نے آنکھیں بند کر کے اس معاملے پر پی ڈی ایم کی مہم کو پروان چڑھایا۔"
پی ٹی آئی رہنما افتخار درانی نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کو گھڑی چور کہنے کے پروپیگنڈے کی ڈائریکٹر اور پروڈیوسر مریم نواز تھیں جو کسی عہدے کے بغیر تحائف اپنے ساتھ لے جاتی رہیں۔ آج ان کا 11 ماہ سے جاری پروپیگنڈا زمین بوس ہو گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے ایک ٹوئٹ میں یہ کہا کہ نیب فوری طور پر مریم نواز کو توشہ خانے سے گھڑی لینے پر طلب کرے اور تحقیقات کی جائیں کہ دو کروڑ کی گھڑی 10 لاکھ میں ایک پرائیوٹ شہری کو کیسے دے دی گئی۔
توشہ خانہ کے ریکارڈ کے مطابق مریم نواز نے توشہ خانہ سے ایک پائن ایپل کا ڈبہ حاصل کیا تھا۔ گھڑی کے دعوے پر مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں اپنے پولیٹیکل سیکریٹری کو ہدایت کی ہے کہ وہ فواد چوہدری کے بیان کو وفاقی تحقیقاتی ادارے(ایف ائی اے )کے سائبر کرائم ونگ میں رپورٹ کریں۔
میڈیا پرسن شفاعت علی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ توشہ خانہ پر ساری بحث اپنی جگہ لیکن وزیرِ اعظم شہباز شریف کو ایک کریڈٹ دینا بنتا ہے کہ انہوں نے پہلی بار قوم کو یہ تو بتایا کہ ان کی امانتوں کے ساتھ کیا کیا جاتا رہا ہے۔
توشہ خانے سے حاصل کردہ تحائف میں گھڑیاں، زیورات، نیکلس، ڈیکوریشن پیس، پین، کتابیں، قرآن پاک، پرفیوم ، کارپٹ، خنجر، ٹی پاٹ، موبائل سیٹ ،شال اور دیگر قیمتی اشیا شامل ہیں۔
ریکارڈ کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری کو 181، سابق صدر پرویز مشرف 126، سابق وزرائے اعظم نوازشریف کو 55، شاہد خاقان کو27 اورعمران خان کو 112 تحائف ملے۔
سابق سفیر حسین حقانی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ توشہ خانہ بحث کے دو نظرانداز کیے جانے والے پہلو میں پہلا یہ ہے کہ قانون پیسے دے کر ملنے والا تحفہ اپنے استعمال کے لیے خریدنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ تحفہ بیچ کر رقم ہتھیانے کی نہیں۔
ان کے بقول دوسرا پہلو یہ ہے کہ نو یا 10 سال حکومت کرنے والے کو تین سال حکومت کرنے والے سے زیادہ تحفے ملے کیوں کہ نو 10 سال کے بیرونی دورے زیادہ تھے۔
صحافی انصار عباسی نے ٹوئٹ کیا کہ سب ارب پتی کروڑ پتی لیکن کسی نے توشہ خانہ کو نہیں بخشا۔
صحافی مبشر زیدی لکھتے ہیں سب سیاسی جماعتوں کے کارکن مخالف جماعت کے رہنماؤں پر توشہ خانے سے تحائف لینے پر تنقید کر رہے ہیں۔ لیکن اپنی جماعت کے رہنما سے کوئی نہیں پوچھ رہا کہ اس نے یہ تحفے کیوں لیے۔ ان کے بقول جس دن یہ ہو گیا اس دن ملک ٹھیک ہو جائے گا۔
آمنہ زبیر نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ جب سے توشہ خانہ کا معاملہ آیا ہے پی ڈی ایم ایکسپوز ہو گئی ہے۔ جس کے بعد میرے ذہن میں ایک گانا آ رہا ہے کہ " سب پھڑے جان گے۔"