رسائی کے لنکس

بھارت: سابق رکن پارلیمان عتیق احمد پولیس کی تحویل میں میڈیا کے سامنے قتل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر الہٰ آباد سے تعلق رکھنے والے مسلم سیاسی رہنما اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کو ہفتے کی شب پولیس کی تحویل میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ عتیق احمد کے خلاف لگ بھگ 100 مقدمات درج تھے۔

انہیں طبی معائنے کے لیے الہٰ آباد میں ایم ایل این میڈیکل کالج لے جایا جا رہا تھا۔ دوسری جانب عتیق احمد کی اہلیہ روپوش ہیں۔

عتیق احمد احمد آباد کی سابرمتی جیل میں قید تھے جہاں سے انہیں منگل کو احمد آباد سے الہ آباد لایا گیا تھا۔

انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں فرضی مقابلے میں قتل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے حکام سے اپیل کی تھی کہ ان کے اہلِ خانہ کو بخش دیا جائے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اسپتال کے احاطے میں پولیس اہل کاروں کے درمیان چلتے ہوئے صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک دو افراد آئے اور عتیق احمد کی کنپٹی پر ریوالور رکھ کر گولی مار دی۔ چند منٹوں کے اندر ان کے بھائی اشرف کو بھی اسی جگہ فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔

عتیق احمد کے وکیل وجے مشرا نے بھارتی نشریاتی ادارے ‘این ڈی ٹی وی’ سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی نے بھیڑ میں سے عتیق احمد اور ان کے بھائی پر فائرنگ کی تھی جس وقت انہیں ہلاک کیا گیا وہ ان کے پیچھے کھڑے تھے۔

اس واردات کے فوراً بعد پولیس نے تین حملہ آوروں کو گرفتار کر لیا جن کے نام لولیش تیواری، سنی اور ارون موریہ بتائے جا رہے ہیں۔

پولیس کمشنر کے مطابق تینوں حملہ آور میڈیا پرسنز کی حیثیت سے آئے تھے۔ اس فائرنگ میں کچھ صحافی اور ایک پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس واقعے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی ہے۔

دو روز قبل ہی عتیق احمد کے بیٹے اسد احمد کو اترپردیش کی اسپیشل ٹاسک فورس نے جھانسی کے قریب مبینہ مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔

عتیق احمد نے مجسٹریٹ سے درخواست کی تھی کہ انہیں ان کے بیٹے کی تدفین میں شرکت کی اجازت دی جائے۔

ان کے ایک وکیل منیش کھنہ نے خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ (پی ٹی آئی) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جمعے کو عدالت کی تعطیل ہونے کی وجہ سے ان کی درخواست پر سماعت نہیں ہو سکی۔ ان کی درخواست ریمانڈ مجسٹریٹ کے پاس بھیج دی گئی تھی۔

انہوں نے اور ان کے اہلِ خانہ نے انتظامیہ سے کئی بار اپیل کی تھی کہ ان کو دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ان کی جان کو خطرہ ہے۔ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک درخواست سپریم کورٹ میں بھی دائر کی تھی۔

اس واردات کے بعد الہ آباد میں الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ آس پاس کے اضلاع میں احتیاطی اقدام کے طورپر اضافی فورس تعینات کر دی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل لا اینڈ آرڈر کو طلب کیا ہے اور ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں حالات کا جائزہ لیا ۔

عتیق احمد سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان اور رکن اسمبلی رہے ہیں۔ وہ الہ آباد ویسٹ کے اسمبلی حلقے سے پانچ مرتبہ رکن منتخب ہوئے تھے، جب کہ 2004 سے2009 تک وہ پھولپور حلقے سے رکن پارلیمان رہ چکے تھے۔

انہیں اغوا کے ایک مقدمے میں سزا سنائی جا چکی تھی۔ وہ 2005 میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رکن اسمبلی راجو پال کے قتل کیس میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ اسی سال فروری میں راجو پال قتل کیس کے ایک گواہ امیش پال کے قتل کا بھی ان پر الزام تھا۔

حزبِ اختلاف کی جانب سے عتیق احمد کے قتل پر شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے ایک بیان میں کہا کہ اترپردیش میں مجرمانہ وارداتیں اپنی انتہا کو پہنچی چکی ہیں، جب کسی کو پولیس کے تحفظ میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا جاتا ہے تو پھر عام لوگوں کے تحفظ کا کیا ہوگا۔

ان کے مطابق اس واردات سے عوام میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر خوف و ہراس کا ماحول بنا رہے ہیں۔

حیدرآباد سے رکن پارلیمان اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا ہے کہ عتیق اور ان کے بھائی کو جو کہ ہتھکڑی میں تھے، پولیس حراست میں قتل کر دیا گیا۔ اس موقع پر جے شری رام کا نعرہ بھی لگایا گیا۔ ان کا قتل یوگی حکومت میں لا اینڈ آرڈر کی مکمل ناکامی کا ثبوت ہے۔ جو لوگ انکاؤنٹر راج کا جشن منا رہے ہیں، وہ بھی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔

خیال رہے کہ عتیق کے بیٹے اسد احمد کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں اترپردیش پولیس کی پذیرائی کی جا رہی تھی۔

کانگریس کے میڈیا شعبے کے انچارج جے رام رمیش نے وزیرِ داخلہ امیت شاہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیرِ داخلہ بننے کے لائق نہیں ہیں۔

بہوجن سماج پارٹی کے رکن پارلیمان کنور دانش علی نے بھی یوگی حکومت پر تنقید کی۔

ان کے مطابق عتیق اور ان کے بھائی کا وحشیانہ قتل ریاست میں انارکی کا ایک ثبوت ہے۔ یہ واردات اعلیٰ سطح سے اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں لا اینڈ آرڈر کے خلاف اس جرم کی وجہ سے ریاستی حکومت کو برطرف کر دیا جانا چاہیے۔

راشٹریہ لوک دل کے صدر اور رکن پارلیمان جینت چوہدری کا کہنا تھا کہ کیا جمہوریت میں ایسا ممکن ہے؟ وہ یوپی حکومت کو جنگل راج قرار دیتے ہیں۔

بی جے پی رہنما اور اترپردیش کے وزیر سوتنتر دیو سنگھ کا کہنا ہے کہ ’پاپ اور پنیہ (گناہ اور ثواب) کا حساب اسی جنم میں ہو جاتا ہے۔ اترپردیش کے وزیر مالیات سریش کھنہ کا کہنا ہے کہ یہ آسمانی فیصلہ ہے۔

سابق نائب وزیرِ اعلیٰ دنیش شرما کا کہنا ہے کہ جانچ کے بعد ہی حقائق معلوم ہوں گے۔ اس سے پہلے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ واردات گینگ وار کا نتیجہ ہے۔

مرکزی حکومت میں وزیر کوشل کشور کا کہنا ہے کہ جو جیسا بوتا ہے، ویسا کاٹتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اچھے کام کرنے چاہیئں۔

بی جے پی کے ایم پی سبرت پاٹھک کے مطابق جو کچھ ہوا ہے وہ جانچ کا موضوع ہے۔ تاہم جس انداز میں قتل ہوا ہے اس کو جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں اتر پردیش اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور سابق وزیرِ اعلیٰ اکھلیش یادو کے درمیان عتیق احمد کے معاملے پر شدید نوک جھونک ہوئی تھی۔

وزیرِ اعلیٰ نے سماج وادی پارٹی پر جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی اور مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ اسے مٹی میں ملا دیں گے‘۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG