ڈونلڈ ٹرمپ منگل کو ایک مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں ، جس میں ایک مصنفہ ای جین کیرل نے سابق امریکی صدر پر یہ الزام لگایا ہے انہوں نے 1990 کی دہائی کے وسط میں ایک ڈپارٹمنٹل اسٹور کے ڈریسنگ روم میں انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔
توقع ہے کہ جیوری کا انتخاب مین ہیٹن کی وفاقی عدالت میں شروع ہو گا، جہاں ایلے میگزین کے سابق ایڈوائس کالم نگار بھی ٹرمپ پر ہتک عزت کا الزام لگائیں گے۔
76 سالہ ٹرمپ نے 79 سالہ کیرل کے ساتھ ریپ کی تردید کی ہے۔ انہوں نے اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر اکتوبر 2022 کی ایک پوسٹ میں اس کے دعوے کو ’’دھوکہ‘‘ اور ’’مکمل فراڈ ‘‘ قرار دیا ہے۔
ٹرمپ کو مقدمے میں پیش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے وکلاء نے کہا ہے کہ وہ سیکیورٹی خدشات اور ٹریفک میں تاخیر کے باعث پیش نہیں ہو ں گے ۔ کیرل کے وکلاء نے بھی کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کو بطور گواہ بلانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اگر ٹرمپ گواہی کے لیے آئے تو انہیں ممکنہ طور پر جارحانہ جرح کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کیرل نے جب پہلی بار 2019 میں عوامی طور پر یہ الزام لگایا تھا کہ ٹرمپ نے انہیں ریپ کیا تو ٹرمپ نے بار بار اور ذاتی طور پر کیرل پر تنقید کرتےہوئے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ذہنی طور پر بیمار خاتون ہے۔
امریکی ڈسٹرکٹ جج لیوس کپلن، جو اس کیس کی نگرانی کررہے ہیں، ججوں کے ناموں کو عوام سے اور وکلاء سے خفیہ رکھ رہے ہیں، تاکہ انہیں ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے ممکنہ طور پر ہراساں کیے جانے سے بچایا جاسکے۔
مقدمے کی سماعت ایک سے دو ہفتے تک چل سکتی ہے۔
ٹرمپ کو جو سن 2024 کے صدارتی انتخابات میں ریپبلکن کی طرف سے مرکزی امیدوار ہیں ، متعدد مقدمات اور تحقیقات کا سامنا ہے۔
ان میں مین ہیٹن ڈسٹرکٹ اٹارنی ایلون بریگ کی جانب سے ایک پورن سٹار کو اپنی زبان بند رکھنے کے لیےرقم کی ادائیگی پر دیوانی مقدمہ بھی شامل ہے۔
منگل کو جہاں موجودہ مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے اس سے تین منٹ کی دوری پر، نیویارک کی ریاستی عدالت میں ،ٹرمپ نے 4 اپریل کو ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔
سابق صدر کو نیویارک کے اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز کی جانب سے ٹرمپ کے نام کی کمپنی میں سول فراڈ کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔
ٹرمپ کو جارجیا کی 2020 کی صدارتی دوڑ میں مداخلت اور ان کی مار-آ-لاگو رہائش گاہ سے برآمد ہونے والی خفیہ سرکاری دستاویزات کے علاوہ 6 جنوری 2021 کو امریکی کیپیٹل پر حملے میں ان کے کردار کے بارے میں فوجداری تحقیقات کا بھی سامنا ہے۔
ان تمام معاملات میں ٹرمپ نے کوئی بھی غلط کام کرنے سے انکار کیا ہے۔
کیرل نے کہا کہ ٹرمپ کے ساتھ ان کی ملاقات برگڈورف گڈمین اسٹور پر 1995 کے آخر یا 1996 کے اوائل میں ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے انہیں پہچان لیا اور کہا کہ تم وہی مشورہ دینے والی خاتون ہو نا ، اور پھر انہوں نے کسی دوسری عورت کے لیے تحفہ خریدنے میں ان کی مدد مانگی۔
کیرل نے کہا کہ ٹرمپ انہیں کسی بہانے سے ڈریسنگ روم میں لے گئے جہاں انہوں نے دروازہ بند کر دیا، اور انہیں زبردستی دیوار سے لگا دیا، پھر ان کے ساتھ زیادتی کی۔
ٹرمپ کے وکلاء کیرل کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ انہوں نے پولیس کو فون کیوں نہیں کیا اور پھر یہ کہ وہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک عوامی طور پر خاموش کیوں رہیں۔ وہ مبینہ حملے کی تاریخ یا مہینہ یاد نہ رکھنے پر بھی ان کی اہلیت کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
کیرل نے کہا ہے کہ #MeToo تحریک نے انہیں آگے آنے کی ترغیب دی۔ دو خواتین جن کے بارے میں کیرل نے کہا کہ انہوں نے جنسی حملے کے بعد اپنا راز ان کو بتایا تھا، وہ مصنف لیزا برنباچ اور سابق نیوز اینکر کیرل مارٹن ہیں جن کی گواہی متوقع ہے۔
کیرل کی گواہوں کی فہرست میں دو دیگر خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے ٹرمپ پر جنسی حملوں کا الزام لگایا ہے لیکن ٹرمپ اس کی تردید کرتے ہیں۔
کیرل کے وکیل ان گواہیوں کو ٹرمپ کی خواتین کے ساتھ مبینہ بدسلوکی کی عادت کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔
ان سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ججوں کے سامنے 2005 کی ’’ایکسیس ہالی ووڈ‘‘ ٹیپ چلائیں گے جس میں ٹرمپ نے خواتین کے بارے میں گرافک اور بیہودہ تبصرے کیے ہیں
کیرل ٹرمپ پر ہتک عزت کا بھی ایک مقدمہ کر رہی ہیں ،جس میں ٹرمپ نے پہلی بار جون 2019 میں جب وہ ابھی صدر تھے ،کیرل کے ساتھ ریپ کے دعوے کی تردید کی تھی۔
وہ کیس کپلن کے سامنے ابھی تک زیر التوا ہے۔
خبر کا کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا