رسائی کے لنکس

سی پیک کیا اب بھی پاکستان کے لیے ’گیم چینجر‘ ہے؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

چین پاکستان اقتصادی رہداری ' سی پیک ' منصوبے کو آغاز ہی سے اسلام آباد اور بیجنگ ایک گیم چینجر قرار دتیےرہے ہیں لیکن سی پیک کے ابتدائی مرحلے میں مکمل ہونے والے توانائی اور بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں کے بعد اس کے تحت جاری منصوبے بظاہر سست روی کا شکار ہیں۔

دوسری جانب بعض نقاد ماضی میں سی پیک کی افادیت کے بارے میں سوال اٹھاتے رہے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کو درپیش سنگین اقتصادی بحران کی وجہ سے ایک بار پھر سی پیک کا مستقبل زیر بحث ہے۔

یاد رہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے میں 2015 سے 2018 کے درمیان توانائی، انفراسٹرکچر سمیت کئی دیگر منصوبے تیزی سے مکمل کیے گئے تھے جس کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار پر بھی مثبت اثر پڑا تھا۔لیکن یہ تسلسل برقرار نہ رہا اور آنے والے برسوں میں پاکستان کی معیشت بتدریج سست روی کا شکار ہو گئی۔

تاہم پاکستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کہتے ہیں کہ سی پیک پاکستان کے یے ایک گیم چینجر تھا اور رہے گا جس کے ذریعے چین نے پاکستان میں توانائی اور شاہراہوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ چین نے سی پیک کے تحت لگ بھگ 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان میں توانائی اور انفراسٹرکچر کےمنصوبے مکمل کیے اور پاکستان کی معیشت کے بڑے خلا کو دور کیا ہے۔

احسن اقبال نے بتایا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں گزشتہ چار برسوں کے دوران کوئی کام نہیں ہوا ہے جب کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں چین کے تعاون سے پاکستان کے چارو ں صوبوں میں خصوصی اقتصادی زون کا قیام بھی شامل تھا۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سی پیک کے دوسرے مرحلے میں اقتصادی زون جلد مکمل ہو جاتے تو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری میں ا ضافہ ہوسکتا تھا۔ کیوں کہ چین میں پیداواری لاگت بڑھنے کی وجہ سے چینی سرمایہ کار اپنی بعض صنعتوں کو بیرونی ممالک منتقل کر رہے تھے۔

’کئی لاکھ نوکریاں پاکستان آسکتی تھیں‘

احسن اقبال نے کہا اس وقت چین سے تقریباً آٹھ کروڑ نوکریاں دوسرے ممالک میں منتقل ہورہی ہیں کیوں کہ چین کے اندر اجرتیں بڑھ چکی ہے اور پاکستان میں لیبر پر آنے والی لاگت ابھی بھی کم ہے۔

ان کے بقول صنعتوں کی منتقلی کی وجہ سے کئی لاکھ نوکریاں پاکستان منتقل ہونے کی توقع تھی۔

احسن اقبال نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان کے چین، یورپی یونین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات خرا ب ہوئے اور ان کے بقول ناقص حکمت عملی کے تحت چین کو بدعنوانی کے طعنے دے کر سرمایہ کاروں کو پاکستان سے دور کر دیا۔

اقتصادی امور کے ماہر عابد سلہری کہتے ہیں کرونا وبا کے دوران بیجنگ کی زیرو کووڈ پالیسی کی وجہ سے چین نے اپنی سرحدیں تقریبا ڈھائی سال تک بند رکھیں۔ اس کی وجہ سے بھی سی پیک میں پیش رفت توقع کے مطا بق نہیں ہو ئی اور مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔

پاکستان کے وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کہتے ہیں کہ اس وقت ہم چین کے ساتھ صنعتی تعاون پر توجہ مرکوز کررہے ہیں۔ چین ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے جس کی دو ہزار ارب ڈالر سے زائد درآمدات ہیں۔ اس میں ہمار ا حصہ تین ار ب ڈالر ہے تو ہم بہ آسانی چین کو اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں۔

اس بارے میں معاشی امور کے ماہر عابدسلہری کی رائے یہ ہے کہ پاکستان اسی صورت میں چین اور دیگر ممالک کو اپنی زرعی اور دیگر منصوعات برآمد کرسکتا ہے جب پاکستان کے پاس برآمد کرنے کے لیے یہ مصنوعات سرپلس ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مینوفیکچرنگ اور زراعت کے شعبوں میں پیداواری سرگرمیوں کو پوری طرح بحال کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی تب ہی پاکستان سی پیک سے فائدہ اٹھا سکے گا۔

سرمایہ کاری میں رکاوٹ؟

وفاقی وزیر احسن اقبال کہتے ہیں کہ اب بھی ان کی حکومت کی کوشش ہے کہ جب چینی سرمایہ ویتنام، کمبوڈیا، بنگلہ دیش اور ایتھوپیا جیسے ممالک میں منتقل ہورہا تو ہے اسے نجی شعبے کے ذریعے پاکستان کی طرف راغب کیا جائے۔

تاہم مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ ایک سال سے ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں کا پاکستان کی جانب متوجہ ہونے کے امکانات حوصلہ افزا نہیں ہیں۔

معاشی امور کے ماہر عابد سلہر ی کہتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی صورتِ حال ختم نہیں ہوگی پاکستان میں کوئی بھی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ ایک طرف ملک میں سیاسی بحران ہے اور دوسری جانب ایک بحث جاری ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گا یا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک کوئی بھی ملک، خواہ وہ کتنا ہی پاکستان کادوست کیوں نہ ہو ان حالات میں پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا ۔

ان کا کہنا تھا کہ دوست ممالک اپنا مفاد دیکھیں گے او ر جب تک ہم سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول نہیں بناتےاور اپنا گھر درست نہیں کرلیتے تو وہ بھی قدم آگے نہیں بڑھائیں گے۔

یادر ہے کہ سی پیک کے ابتدائی منصوبوں کے بعد پاکستان اور چین کے درمیان کسی نئے بڑے منصوبے پر دستخط نہیں ہوئے۔

عابد سلہری کہتے ہیں کہ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آتا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے نہیں پاسکتے تو کوئی نئی سرمایہ کاری آنے کا امکان نہیں ہے۔

چینی کمپنیوں کے واجبات

پاکستان میں سی پیک کے تحت پاؤر سیکٹر میں آنے والی چینی سرمایہ کاری سے پاکستان میں بجلی کی پیدوار میں تقریبا 10 ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہوا اور اس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ میں کمی آئی ۔

پاکستان کے سابق مشیرِ خزانہ اور اقتصادی امور کے ماہر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے پاکستان کو ہر سال تقریبا 17 سو ارب روپے کا نقصان ہورہا تھا۔ چین نے نہ صرف توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرکے بجلی کی پیدوار بڑھانے میں پاکستان کی مدد کی بلکہ ا س کے ساتھ ساتھ چین کے کمرشل بنکوں نے پاکستان میں وسیع پیمانے میں سرمایہ کاری کے لیے قرض فراہم کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ذریعے پاکستان میں انفرااسٹرکچر اور شاہراہیں تعمیر کی گئیں لیکن ان منصوبوں کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ مالیاتی مضمرات بھی ہیں جن پر پاکستان کو غور کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے چین کےانڈیپینڈنٹ پاؤر پلانٹس (آئی پی پیز ) کمپنیوں کے ساتھ توانائی کے معاہدے کیے۔ اس کے ساتھ ساتھ چین کو اور بھی مراعات دیں۔ لیکن پاکستان کو درپیش غیرملکی زرِمبادلہ کی مشکلات کی وجہ سے چینی کمپنیوں کو اپنا منافع ڈالر میں باہر لے جانے میں دیر ہورہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ چینی توانائی کمپنوں کے واجبات پاکستان کے گردشی قرضے کا حصہ ہیں۔ یہ واجبات ڈھائی سو سے 300 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔اگرچہ حکومتِ پاکستان نے چینی کمپنوں کو واجبات ادا کرنے کے لیے ایک فنڈ قائم کیا تھا لیکن ابھی تک معاملہ پوری طرح حل نہیں ہوسکا ہے اور حفیظ پاشا کے بقول اس کی و جہ سے چینی پاکستان سےخفا نظر آتے ہیں۔

حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ چینی سرمایہ کار ی تقریباً رک گئی ہے اور چین نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران پاکستان میں صرف پانچ کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر چہ سی پیک کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ مگر اب ہمیں چین کی سرمایہ کاری کے منافع اور قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ چین کے پاکستان کو دیے گئے قرضوں میں اضافہ ہورہا ہے جن میں چین کے کمرشل بینکوں کے قرضے بھی شامل ہیں۔

پاکستان کی معیشت کا بنیادی مسئلہ ہے کیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:18:12 0:00

بین الااقومی مالیاتی ادارے کے میڈیا میں سامنے آنے والے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کے 126 ارب ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں میں تقریباً 30 ارب ڈالر چین کے ہیں جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک سے حاصل کردہ قرضوں کی مجموعی رقم سے بھی زیادہ ہیں۔ تاہم پاکستان کو موقف رہا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر قرضے طویل المدت ہیں ۔

حفیظ پاشا کے مطابق سی پیک کے تحت صنعتی اقتصادی زون قائم ہونا تھے لیکن اس طرف کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کو معلوم ہے کہ پاکستان کی منافع ادا کرنے اور اس کے قرض ادا کرنے کی استعداد اب کم ہو گئی ہے اس لیے چین سے سرمایہ کاری میں کسی غیر معمولی اضافے کا امکان نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG