پاکستان کی فوج نے کہا ہے کہ فوج سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تنصیبات یا املاک پر کسی بھی مزید حملے کی صورت میں شدید ردِ عمل دیا جائے گا۔
فوج کی جانب سے بدھ کی شام یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایک دن قبل پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کی جانب سے ملک بھر میں احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔
احتجاج کے دوران راولپنڈی میں فوج کے مرکز جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) اور لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس سمیت کئی مقامات پر فوجی تنصیبات میں مشتعل افراد نے توڑ پھوڑ کی تھی جب کہ کئی املاک کو نذر آتش بھی کر دیا گیا تھا۔
فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ فوج کے شدید ردِ عمل کی ذمے داری اسی ٹولے پر ہو گی جو ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے اور متعدد بار برملا اس کا اظہار بھی کر چکا ہے۔ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
فوج نے اپنے بیان میں نو مئی کو ملکی تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ نو مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے پیرا ملٹری فورس رینجرز نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو گرفتار کیا تھا جس کے بعد کئی شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے حوالے سے آئی ایس پی آر نے پریس ریلیز میں کہا کہ تحریکِ انصاف کے چیئرمین کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے اعلامیہ کے مطابق قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا-
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس گرفتاری کے فوری بعد منظم طریقے سے فوج کی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے جب کہ فوج مخالف نعرے بازی کرائی گئی۔
فوج نے تحریکِ انصاف کی قیادت کے بارے میں کہا کہ ایک طرف تو یہ شر پسند عناصر عوامی جذبات کو محدود مقاصد کی تکمیل کے لیے ابھارتے ہیں تو دوسری جانب لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے فوج کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے نہیں تھکتے جو کہ دوغلے پن کی مثال ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جو کام پاکستان کے دشمن 75 برس میں نہ کر سکے وہ اقتدار کی ہوس میں سیاسی لبادہ اوڑھے اس گروہ نے کر دیکھایا ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں فوج کی حکمتِ عملی کا دفاع کرتے ہوئے کہا گیا کہ فوج نے انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر اور برداشت سے کام لیا۔
بیان میں تحریکِ انصاف پر الزام لگایا گیا کہ منصوبہ بندی کے تحت اِس صورتِ حال سے یہ کوشش کی گئی کہ فوج فوری ردِ عمل دے جس کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے- فوج کے ذمہ دارانہ ردِ عمل سے سازش ناکام ہوئی۔ اس کے پیچھے تحریکِ انصاف کی قیادت میں کچھ شر پسندوں کے احکامات، ہدایات اور پیشگی منصوبہ بندی شامل تھی۔
فوج نے واضح کیا ہے کہ اس نے ان افراد کو شناخت کر لیا ہے جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
آئی ایس پی آر کا بیان میں کہنا تھا کہ جو بھی سہولت کار اور منصوبہ ساز ان کارروائیوں میں ملوث تھے ان کو شناخت کر لیا گیا ہے۔
فوج نے متنبہ کیا ہے کہ جن افراد کو شناخت کیا گیا ہے ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق یہ تمام شرپسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔
’فوج کو عوام کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے‘
دوسری جانب تحریکِ انصاف کی قیادت کا کہنا ہے کہ فوج کو عوام کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں آرمی کو طلب کرکے فوج کو عوام کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے جو کہ ایک خطرناک بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف ملک کے متوسط طبقے کی سب سے بڑی جماعت ہے جب کہ فوج مڈل کلاس کا سب سے بڑا گروہ ہے۔ یہ قطعی طور پر نہیں ہونا چاہیے کہ فوج اور عوام کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا جائے۔
انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی بھی سطح پر رابطہ نہیں ہے۔
فوج کے سربراہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنرل عاصم منیر سے درخواست کی ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال میں مداخلت کریں۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جو صورتِ حال ہے اس میں تو ایسا لگ رہا ہے کہ چند دن میں جج بھی گرفتار ہو جائیں گے۔
تحریکِ انصاف کی احتجاجی مہم پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے آئین و قانون کے اندر رہ کر ایک آئینی مہم چلائی ہوئی ہے اور عمران خان کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی کیس دائر کیا ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی قیادت کی جانب سے پر امن احتجاج کی کال دی گئی تھی اسی کے نتیجے میں ملک بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔