پاکستان میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج اور مظاہروں کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیش نظر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے اپنے شہریوں کے لیے ٹریول ایڈوائزری اور الرٹس جاری کردیے ہیں۔
اسلام آباد میں امریکہ کے سفارت خانے نے پاکستان میں موجود اپنے شہریوں کے لیے الرٹ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سفارت خانہ مظاہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے واقعات اور ممکنہ مظاہروں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
سفارت خانے نے کہا ہے کہ ٹریفک میں آنے والے ممکنہ خلل اور رکاوٹوں کی وجہ سے سفارت خانے نے 10 مئی کو اپنی تمام قونصلر اپوائنٹ منٹس منسوخ کردی ہیں۔الرٹ میں اپنےشہریوں کو پرہجوم مقامات سے گریز کرنے ،محتاط رہنے اور مقامی میڈیا پر صورتِ حال کو مانیٹر کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔
کینیڈا کی حکومت نے بھی پاکستان میں غیر معمولی سیکیورٹی صورتِ حال کے پیش نظر ’ہائی ڈگری‘ انتباہ جاری کیا ہے۔اس سلسلے میں جاری کی گئی ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی، بد امنی، فرقہ وارانہ تشدد اور اغوا جیسے خطرات لاحق ہیں۔
پاکستان میں برطانیہ کے قائم مقام ہائی کمشنر اینڈریو ڈیلگلیش نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ پاکستان کے لیے ٹریول ایڈوائس کو اپ ڈیٹ کردیا گیا ہے۔
ایڈوائزری میں خیبر پختونخوا میں شامل ہونے والے سابق قبائلی اضلاع، پشاور، بلوچستان، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر،شاہراہِ قرارم اور دیگر ہائی ویز کے بلا ضرورت سفر سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ، لائن آف کنٹرول اور چین سے ملحقہ سرحدوں سے 10 کلومیٹر فاصلے کے اندر سفر کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
حکومت برطانیہ کی جاری کردہ ایڈوائزری میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی صورتِ حال، احتجاج اور انٹرنیٹ کی بندش کا تذکرہ کرتے ہوئے حالات خراب ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یورپی یونین نے بھی رکن ممالک کے شہریوں کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے سفر سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔
عالمی ردعمل
عمران خان کی گرفتاری پر امریکہ، برطانیہ، یورپی کمیشن کے علاوہ اقوامِ متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی تنظیموں کا ردعمل سامنے آچکا ہے۔
اس کے علاوہ عالمی سیاست دانوں، صحافیوں اور تھنک ٹینک سے وابستہ محققین نے بھی سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ اور سابق اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ عمران خان کی گرفتاری پاکستان میں جمہوریت کے لیے سیاہ دن ہے۔
انہوں نے عمران خان سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
تھنک ٹینک بروکنگ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ اسکالر مدیحہ افضل نے کہا کہ عمران خان نے اپنے حالیہ بیانات میں فوج کی ’سرخ لکیر‘ کو عبور کرتے ہوئے فوجی اور انٹیلی جینس افسران کے خلاف بات کی ہے۔
ان کے بقول یہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے عمران خان کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نتیجہ ہے اور حققیت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم ایک تھنک ٹینک وڈرو ولسن انٹرنیشل سینٹر میں جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا کے لیے سینئر پروگرام ایسوسی ایٹ مائیکل کوگلمین نے عمران خان کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے لیڈر کی گرفتاری سرخ لکیر ہے۔
ان کے بقول پولیس کا کہنا ہے کہ اس گرفتاری کا تعلق کرپشن سے ہے۔ لیکن خان نے حال ہی میں ان الزامات کا اعادہ کیا ہے کہ پچھلے سال ان کے قتل کی کوشش کے پیچھے ایک اعلیٰ سیکیورٹی عہدے دار کا ہاتھ تھا۔
انہوں ںے موجودہ صورتِ حال کو ایک طویل اور ڈراؤنے بحران میں مزید اضافہ قرار دیا ہے۔
افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق مندوب زلمے خلیل زاد نے عمران خان کی گرفتاری پر اپنے سلسلے وار ٹوئٹس میں اسے افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے اشارے موجود ہیں کہ پارلیمنٹ عمران خان کو نااہل قرار دینے کا کہہ سکتی ہے۔
ٹوئٹس میں ان کا مزید کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ حکومت نے عمران خان کو ریاست کا اولین دشمن قرار دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
انہوں نے انتباہ کیا کہ ایسے اقدامات پاکستان کے سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی بحران کو مزید گہرا کر دیں گے۔ اس کے نتیجے میں بین الاقوامی حمایت کم ہو جائے گی۔ پہلے ہی کچھ ممالک سرمایہ کاری کے طے شدہ منصوبے معطل کر چکے ہیں اور اب تک آئی ایم ایف کی مدد بھی واضح نہیں ہے۔