سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے بعد عمران خان کی ہائی کورٹ میں پیشی سے پہلے ہی اندازہ تھا کہ انہیں باآسانی ضمانت مل جائے گی لیکن دیگر تمام کیسز میں اور پیر تک کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا ریلیف ملے گا ، اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔
جمعے کو دن 11 بجے عمران خان نے پیش ہونا تھا لیکن قدرے تاخیر سے جب انہیں لایا گیا تو وہی رینجرز جس نے انہیں دو روز قبل زبردستی اٹھایا تھا وہی ان کی سیکیورٹی پر مامور تھی۔
اسلام آباد پولیس کے ایک ڈی آئی جی اور ان کی سیکیورٹی پر مامور دیگر سول کپڑوں والے افراد ان کے ساتھ تھے۔
توقع کی جارہی تھی کہ انہیں آج چیف جسٹس کی عدالت کورٹ روم نمبر ایک میں پیش کیا جائے گا اور اسی وجہ سے عمران خان کے تمام وکلا اور صحافی اس عدالت میں جا کر بیٹھ گئے اور خان صاحب کی آمد کا انتظار کررہے تھے۔
اچانک ایک عدالتی اہلکار نے ان کے وکلا کو بتایا کہ دو رکنی بینچ بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اب جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت میں کیس لگے گا۔
باہر نکلے تو عمران خان ہائی کورٹ کے احاطے میں آچکے تھے اور رینجرز انہیں گھیرکر آہستہ آہستہ پیدل چلاتی ہوئی لے کر جارہی تھی۔
عمران خان کا کیس کیوں کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق وہیں سے شروع ہونا تھا جہاں سے رکا تھا۔ یعنی بائیومیٹرک کروانے کے لیے اس برانچ تک جانا تھا۔
عمران خان اسی کمرے میں ایک بار پھر پہنچے لیکن اس بار رینجرز کا رویہ خاصا شائستہ رہا اور بائیو میٹرک کے بعد جس راستے سے عمران کو گرفتار کر کے لے جایا گیا تھا وہیں سے عمران خان رینجرز کی سیکیورٹی میں پیدل چلتے ہوئے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت کی طرف چلتے رہے۔
'عمران خان رینجرز کی سیکیورٹی میں ہنستے مسکراتے عدالت کی طرف چلتے رہے'
اس دوران صحافی نے سوال کیا کہ خان صاحب ڈٹ گئے ہیں یا ڈیل ہوگئی ہے؟ اس پر عمران خان نے مکا بنا کر لہرایا جس کے بعد ان کے حامی وکلا نے نعرے بازی شروع کردی۔
عمران خان ہنستے مسکراتے ہوئے چلتے رہے اور عدالت کے دروازے پر پہنچے۔ اس دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی عدالت میں تمام وکلا جمع ہوچکے تھے اور جب رینجرز نے اندر کی صورت حال دیکھی تو اس کمرے کی گنجائش کے پیش نظر وہاں عدالت لگانے کے بجائے کورٹ روم نمبر دو یعنی جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں کیس سننے کا فیصلہ کیا گیا۔
'کمرۂ عدالت میں شدید حبس کی وجہ سے سب کا برا حال تھا'
عمران خان اس عدالت میں پہنچے تو رینجرز اہلکار اس کمرے کے چاروں طرف گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے۔
عدالت کے دروازے پر وقفے وقفے سے لڑائی جھگڑوں کی آوازیں بھی آتی رہیں کیوں کہ کبھی وکلا اور کبھی صحافی اندر جانے کی کوشش کرتے اور وہیں تلخ کلامی شروع ہوجاتی تھی۔
کئی مرتبہ کی کوشش اور پولیس کے ایک دوست کی مدد سے کمرۂ عدالت میں جانے کا موقع ملا تو اندر شدید حبس کی وجہ سے سب کا برا حال تھا لیکن سب اس کیس کو سننے کے لیے بے چین تھے اور کوئی باہر جانے کو بھی تیار نہیں تھا۔
صورتِ حال اس وقت خراب ہو گئی جب ایک وکیل صاحب نے عمران خان زندہ باد کا نعرہ لگا دیا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب غصے میں آ گئے اور کہا کہ ان وکیل صاحب کو فوراً باہر نکالیں۔ اگر ایسا رویہ رکھا تو ہم کیس نہیں سنیں گے۔
اس پر وکیل صاحب کو تو باہر نکال دیا گیا لیکن پی ٹی آئی کے وکلا نے بھی اس سے لاتعلقی اختیار کر لی اور کہا کہ ہم اسے جانتے ہی نہیں۔ لیکن جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نماز جمعہ کی وجہ سے سماعت میں وقفہ کر دیا اور اس وقفے میں بھی بیشتر افراد نے کمرۂ عدالت میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
'رپورٹر پریشان ہو گیا جب اس کو خبر دینے پر دفتر سے ڈانٹ پڑی کہ ایسی حساس خبریں کیوں دے رہے ہو؟'
کمرۂ عدالت میں اگرچہ موبائل فون کے استعمال کی سختی سے ممانعت ہوتی ہے لیکن بعض صحافیوں نے موبائل فون پر عمران خان سے بات چیت کی ،اس پر کورٹ رپورٹرز خاصے پریشان نظر آئے کہ عدالت نے اس کا نوٹس لیا تو آئندہ فون سائلنٹ کرکے عدالت کے اندر لانے کی اجازت نہیں رہے گی اور فون باہر رکھوانا پڑیں گے۔
تاہم اس دوران عمران خان نے موجودہ آرمی چیف کو موجودہ صورت حال کا ذمے دار قرار دیا جس پر بین الاقوامی چینلز کے صحافیوں نے تو فوری طور پر اپنے اپنے دفتر خبر لکھوا دی۔ لیکن مقامی صحافیوں نے اگر خبر بھجوائی بھی تو کسی نے چلانا مناسب نہ سمجھا۔
ایک رپورٹر پریشان نظر آیا جب اس کو یہ خبر اپنے دفتر دینے پر ڈانٹ پڑی کہ ایسی حساس خبریں کیوں دے رہے ہو جس پر وہ پریشان ہوکر ہم سے کہہ رہا تھا کہ "یار میرا کیا قصور ، اب خان کہے تو میں خبر بھی نہ لکھواؤں۔"
'ہائی کورٹ کی کینٹین میں گئے تو کھانا تو دور کی بات بسکٹ یا پانی بھی ختم ہوچکا تھا'
کمرۂ عدالت سے ہم باہر آگئے لیکن عمران خان نہ نکلے۔ اس دوران رینجرز اہل کار بھی تھک کر سائیڈ پر بیٹھ گئے۔ پولیس اور ایف سی اہل کار بھی ہائی کورٹ کے برآمدوں میں زمین پر ہی بیٹھ گئے۔
ہائی کورٹ کی کینٹین میں گئے تو کھانا تو دور کی بات بسکٹ یا پانی بھی ختم ہوچکا تھا، کینٹین کے ویٹر نے ہماری حالت دیکھ کر رکنے کا اشارہ کیا اور چند لمحوں بعد کچن سے ایک پانی کی بوتل لا کر تھما دی۔
شام ہوگئی تو جسٹس گل حسن اورنگزیب کی عدالت سے عمران خان جسٹس طارق محمود جہانگیری کی عدالت میں آگئے جہاں لاہور اور اسلام آباد کے مختلف کیسز میں ان کی ضمانتیں منظور کی گئیں۔
بعدازاں ان ضمانتوں کی دستاویزات کے لیے مچلکے جمع کروانے کا کام شروع ہوگیا۔ عمران خان کے وکلا نے اگرچہ تیاری کررکھی تھی لیکن پھر بھی ان کے سٹاف کو دو گھنٹوں سے زائد کا وقت لگا اور تمام کاغذات مکمل ہونے کے بعد ضمانت کی دستاویزات حاصل کر لی گئیں۔
' فائرنگ کی اطلاع پر پولیس نے روٹ کی کلیئرنس دینے سے انکار کر دیا'
رات گئے عمران خان کی روانگی سے کچھ دیر پہلے جی الیون میں فائرنگ کی اطلاع آئی جس کے بعد پولیس نے روٹ کی سیکیورٹی کلئیرنس دینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد آئی جی اسلام آباد آئے اور عمران خان سے بات چیت کے بعد روٹ کلئیر ہوا اور عمران خان ججز گیٹ کے راستے سے لاہور روانہ ہوگئے۔
'انٹرنیٹ سروسز بحال ہونے کی اطلاع ملی تو تھک کر واپسی کی راہ لیتے یو ٹیوبرز اپنی ویڈیوز لائیو سٹریم کرنے لگے'
عمران خان کی روانگی کے بعد صبح سے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کار اور صحافی تھکے قدموں سے چھٹی کرکے جانے لگے ۔ اسی دوران خوشخبری ملی کہ انٹرنیٹ سروسز اور سوشل میڈیا سائٹس بحال ہونا شروع ہوگئیں تو دن بھر کے تھکے ہارے بعض یوٹیوبرز لائیو سٹریمنگ کرکے اپنی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے لگے۔