رسائی کے لنکس

فلسطینیوں کی ہجرت کے 75 برس مکمل، اقوامِ متحدہ کی پہلی بار یادگاری تقریب


نومبر 1948 میں عرب پناہ گزینوں کا ایک گروپ سامان کے ساتھ لبنان جا رہا ہے۔(فائل فوٹو)
نومبر 1948 میں عرب پناہ گزینوں کا ایک گروپ سامان کے ساتھ لبنان جا رہا ہے۔(فائل فوٹو)

برطانوی حکومت کے زیرانتظام فلسطینی علاقوں کی یہودی اور عرب ریاستوں میں تقسیم کے 75 برس مکمل ہونے پر اقوامِ متحدہ باقاعدہ طور پر لاکھوں فلسطینیوں کی ان علاقوں سے ہجرت کی یادگاری تقریب منا رہی ہے۔ فلسطینی اسے 'النکبۃ' یعنی تباہی کا نام دیتے ہیں۔

اقوامِ متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے اس تقریب کو تاریخی اور اہم قرار دیا ہے کیوں کہ جنرل اسمبلی نے فلسطینی علاقوں کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

ریاض منصور نے حال ہی میں اقوامِ متحدہ میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھاکہ یہ اقوامِ متحدہ کی اس ذمہ داری کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ 75 برس میں فلسطینی عوام کے لیے اس تباہی کے معاملے کو درست کرنے اور مسائل کوحل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے لیے تباہی اب بھی جاری ہے. فلسطینیوں کے پاس اب بھی ایک آزاد ریاست نہیں ہے اور انہیں اپنے گھروں کو واپس جانے کا حق نہیں ملا جیسا کہ دسمبر 1948 میں جنرل اسمبلی کی قرارداد میں منظور کیا گیا تھا۔

اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جلعاد اردان نے اس یادگاری تقریب کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک قابلِ نفرت واقعہ اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش قرار دیا۔

جلعاد اردان نے کہا کہ جو لوگ اس تقریب میں شرکت کریں گے وہ یہود دشمنی کو نظر انداز کریں گے اور فلسطینیوں کو اپنے توہین آمیز بیانیے کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی اداروں کا استحصال جاری رکھنے کی کھلی چھٹی دیں گے۔

فلسطین کی تقسیم

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے اپنی رپورٹ میں اس مسئلے کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا ہےکہ1947 میں 57 رکن ممالک پر مشتمل جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کی قرارداد 13 کے مقابلے میں 33 ووٹوں سے منظور کی تھی جب کہ باقی ممالک کارروائی سے غیر حاضر رہے تھے۔

یہودی فریق نے اقوامِ متحدہ کے تقسیم کے منصوبے کو قبول کیا تھا جب کہ 1948 میں برطانوی مینڈیٹ ختم ہونے کے بعد اسرائیل نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔

عربوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا تھا جب کہ عرب ممالک نے اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کر دی تھی۔

فلسطینیوں کی ہجرت

’النکبہ‘ کو لگ بھگ سات لاکھ فلسطینیوں کےاخراج کی یاد میں منایا جاتا ہے جو 1948 میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔

ان پناہ گزینوں اور ان کی اولادوں کی قسمت کا فیصلہ عرب اسرائیل تنازعے میں ایک بڑا مسئلہ رہاہے۔ ان افراد کی تعداد اندازوں کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 50 لاکھ سے زائد ہے -

اسرائیل پناہ گزینوں کی بڑے پیمانے پر واپسی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس سے ملک کی یہودی شناخت کو خطرہ ہو گا۔

اقوامِ متحدہ کی 193 رکنی جنرل اسمبلی نے گزشتہ برس 30 نومبر کو 30 کے مقابلے میں 90 ووٹوں سے ایک قرار داد منظور کی تھی جس میں فلسطینی عوام کے ناقابلِ تنسیخ حقوق پر عمل سے متعلق کمیٹی سے درخواست کی گئی تھی کی کہ وہ 15 مئی کو نکبہ کی یاد میں ایک اعلیٰ سطح کی تقریب کا اہتمام کیا جائے۔ جنرل اسمبلی میں اس قرار داد پر رائے شماری میں 47 ممالک غیر حاضر رہے تھے۔

اس وقت اسرائیل کے سفیر جلعاد اردان نےکہا تھا کہ یہودیوں کے’النکبہ ‘ کو نظرانداز کرنا بند کریں۔

امریکہ ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے قرارداد کے خلاف ووٹنگ میں اسرائیل کا ساتھ دیا تھا۔

اقوامِ متحدہ میں امریکی مشن نے کہا ہے کہ آج پیر کی یاد گاری تقریب میں کوئی بھی امریکی سفارت کار شرکت نہیں کرے گا۔

XS
SM
MD
LG