امریکہ کی وفاقی حکومت کی قرض کی حد یکم جون سے پہلے بڑھانے کےلیے حکومت اور ایوان نمائندگان میں اکثریتی ریپبلیکن پارٹی کے درمیان اعلٰی ترین سطح پر ہونے والی بات چیت کا ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے، جب کہ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کوئی سمجھوتہ نہ ہونے کے نتیجے میں ملک کساد بازاری کا شکار ہوسکتا ہے جس سے اندرون ملک تو بے شمار منفی اثرات مرتب ہوں گے ہی، لیکن ماہرین کے مطابق یہ صورت حال نہ جانے اور کتنی معیشتوں کے لئے نقصان دہ ہوگی اورممکن ہے کہ عالمی معیشت کا کوئی بھی حصہ اس کے اثرات سے محفوظ نہ رہے ۔
امریکہ میں قرض کو محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے
پریشانی اور ہلچل میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ کس ملک کی اقتصادی سرگرمی اس اعتماد پر ہوتی ہے کہ امریکہ ہمیشہ اپنی مالیاتی ذمہ داریاں پوری کرے گا۔ اس کے قرض کو عرصہ دراز سے، انتہائی محفوظ اثاثے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اور یوں امریکہ پر عشروں سے یہ اعتماد قائم ہے۔ اب اگر امریکہ ہی ڈیفالٹ کرتا ہے تو یہ ٹریژری قرضوں کی چوبیس کھرب ڈالر کی مارکیٹ کو تہہ و بالا کر سکتا ہے۔ مالیاتی منڈیوں کے منجمد ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور بین الاقوامی بحران پیدا کر سکتا ہے۔
کورنیل یونیورسٹی میں ٹریڈ پالیسی کے پروفیسر اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینئیر فیلو ایسور پیریڈز کہتے ہیں کہ ڈیفالٹ ایک تباہ کن واقعہ ہو گا۔ جس کے امریکہ اور عالمی مالیاتی منڈیوں کے لیے ڈرامائی اثرات ہوں گے۔
یہ خطرہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ عالمی معیشت بڑھتے ہوئے افراط زر، بلند ہوتی شرح سود ، یوکرین پر روسی حملے کے جاری اثرات اور آمرانہ حکومتوں کی سخت گرفت تک خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت سے ممالک میں عالمی مالیات کے حوالے سے امریکہ کے بڑے رول پر بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کے سینئیر فیلو اور عالمی مالیاتی فنڈ کے سابق چیف اکنامسٹ موریس او بسٹ فیلڈ نے کہا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے ٹریژریز کی امانت داری مشکوک ہو جائے تو اس کے خراب اثرات ہوں گے اور عالمی پیداوار اس سے بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔
مرکزی بینکوں میں ڈالر کے ذخائر
دنیا کے مرکزی بینکوں میں غیر ملکی زر مبادلہ کے جو ذخائر رکھے جاتے ہیں، ان میں سے عالمی مالیاتی فنڈ کے مطابق 58 فیصد ڈالر کی شکل میں ہوتے ہیں۔ 20 فیصد یورو میں اور چینی کرنسی یوآن میں 3 فیصد ہوتے ہیں۔ یعنی امریکی کرنسی انتہائی قابل بھروسہ سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے ڈالر کے بغیر عالمی سطح پر لین دین بہت مشکل ہے اور ڈیفالٹ کی صورت میں اس حوالے سے عالمی سطح پر لین دین بھی متاثر ہو گا۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ قرضے کی حد کے بارے میں یہ صورت حال ، امریکہ اور ڈالرکی زبردست مالیاتی قوت کے بارے میں سوالات کو یقیناً جنم دے گی۔
اوبسٹ فیلڈ کہتے ہیں کہ عالمی معیشت اس وقت بہت کمزور ہے اور ایسے میں امریکہ کی ذمّہ داریوں کے بارے میں جو عالمی معیشت کےلیے انتہائی اہم ہے، یہ صورت حال پیدا ہونا ،غیر ذمہ دارانہ بات ہو گی۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)