یوکرین کے سب سے بڑے پانی کے ذخیرے پر حملے کے بعد پڑنے والے شگاف کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی کے خدشات ہیں جب کہ کئی علاقے زیرِ آب آ گئے ہیں۔
کسی فریق نے بھی ڈیم پر ہونے والے حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی، تاہم ڈیم کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے روس کی یوکرین میں جنگ پر اس کے اثرات کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔
منگل کو یوکرین کے علاقے خیرسون میں واقع 'نوا کاخوفکا' ڈیم دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا۔ روس اور یوکرین کی افواج نے ایک دوسرے پر ڈیم تباہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دریائے نیپر پر 1954 میں تعمیر ہونے والے اس ڈیم کی اونچائی 30 میٹر جب کہ لمبائی تین کلومیٹر ہے اور اسے یوکرین کے جنوب میں روس کے زیرِ قبضہ علاقوں میں فرنٹ لائن سمجھا جاتا ہے۔
یہ ڈیم اہم کیوں ہے؟
ڈیم اور اس سے منسلک ہائیڈرو الیکٹرک پاوور اسٹیشن خیرسون شہر سے 70 کلو میٹر کی دُوری پر واقع ہے۔ یہ ایسے مقام پر واقع ہے جہاں روس اپنے قبضے کا دعویٰ کرتا ہے، تاہم یہاں اسے مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہے۔
یہ ڈیم اور پاوور اسٹیشن جنوبی یوکرین کے کئی علاقوں میں پانی کی فراہمی، آب پاشی اور بجلی فراہم کرنے کا ذریعہ ہے ۔ اس میں کرائمیا بھی شامل ہے جس پر روس نے 2014 میں غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا تھا۔
دریائے نیپر یوکرین کے بڑے حصے کو سیراب کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یوکرین کا شمار دنیا بھر میں گندم، سورج مکھی کے تیل اور دیگر اناج برآمد کرنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے۔
منگل کو عالمی سطح پر گندم اور مکئی کی قیمتوں میں اضافہ اسی خدشے پر ہوا کہ ڈیم ٹوٹنے سے پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔
'نوا کاخوفکا' ڈیم کا شمار گنجائش کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ڈیموں میں ہوتا ہے اور اس میں امریکہ کی سالٹ لیک جتنا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ یوکرین کے جوہری پاور پلانٹ زاپوریژیا میں کولنگ سسٹم کے لیے پانی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ وہی جوہری پاور پلانٹ ہے جہاں ہونے والی لڑائی نے بڑی تباہی کے خدشات پیدا کر دیے تھے۔
لڑائی کے دوران ڈیم کے ساتھ کیا ہوا؟
روس نے لڑائی کے ابتدائی دنوں سے ہی اس ڈیم پر کنٹرول کا دعویٰ کر دیا تھا۔ ماسکو اور کیف ایک دوسرے پر اس ڈیم پر بم باری کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔
یوکرین کا الزام ہے کہ اس ڈیم پر گزشتہ برس خزاں میں قابض روسی فوج نے دھماکہ خیز مواد سے دھماکہ کیا جس کی وجہ سے ڈیم کے تین گیٹس کو نقصان پہنچا جو پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ یوکرینی حکام کے مطابق مئی میں ڈیم کے دروازوں کو پہنچنے والے نقصانات کے آثار واضح تھے۔
حکام کے مطابق منگل کو ہونے والی تباہی سے قبل بھی ڈیم سے بجلی کی پیداوار متاثر ہو رہی تھی۔ یوکرینی حکام اور آزاد ماہرین کے مطابق 50 کی دہائی میں تعمیر ہونے والے اس ڈیم کی دیکھ بھال میں روس ناکام رہا ہے، یا تو ایسا جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے یا روس اسے نظرانداز کر رہا ہے۔
رواں برس کے آغاز میں ڈیم میں پانی کی سطح اس حد تک کم ہو گئی تھی کہ زاپوریژیا پاوور پلانٹ کا کولنگ سسٹم متاثر ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔ لیکن فروری کے بعد سے پانی کی سطح میں پھر سے اضافہ دیکھنے میں آیا تھا۔
ڈیم اور پاور پلانٹ کا انتظام کرنے والی یوکرین کی کمپنی کا اندازہ ہے کہ آبی ذخائر کو توازن تک پہنچنے اور بڑے پیمانے پر پانی کا اخراج روکنے میں تقریباً چار دن لگیں گے۔
اب کیا خطرہ ہے؟
ڈیم ٹوٹنے سے پانی کے اخراج پر روس اور یوکرین دونوں کے حکام نے ملحقہ80 قصبوں اور دیہات میں آبادی کو انخلا کی ہدایت کی ہے۔تاحال کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔
حکام کا کہنا ہے روس کے زیرِ قبضہ علاقوں میں لگ بھگ 22 ہزار افراد سیلاب کے خطرے سے دوچار ہیں جب کہ یوکرین کے کنٹرول والے علاقے میں 16 ہزار افراد کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ کم از کم 16 ہزار افراد پہلے ہی اپنے گھروں کو کھو چکے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد کے رابطہ کار نے کہا کہ متاثرہ افراد کو پانی، رقم اور قانونی مدد فراہم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
یوکرین کی وزارتِ توانائی نے بتایا ہے کہ خیرسون کے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی میں تعطل آیا ہے اور اب تک 12 ہزار صارفین بجلی سے محروم ہیں جب کہ پانی کی کمی کے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ گو کہ جوہری پلانٹ کی طرف پانی کی سطح کم ہوئی ہے، لیکن فی الفور یورپ کے سب سے بڑے زاپوریژیا جوہری پلانٹ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
جنگ میں اس کا کیا اثر پڑے گا؟
یوکرین کا الزام ہے کہ یہ ڈیم روس نے تباہ کیا تاکہ اس علاقے میں یوکرین کی جوابی کارروائیوں کو روکا جا سکا۔ لیکن روسی حکام کا الزام ہے کہ یوکرین نے مغربی کنارے پر ممکنہ روسی حملے کو روکنے کے لیے ڈیم کو تباہ کیا۔
ماہرین کے مطابق جو بھی صورت ہو ڈیم کی تباہی سے ملک کے اہم دریا کے بہاؤ میں خلل آیا ہے۔ یہ ڈیم گاڑیوں کی آمدورفت کے لیے نہ صرف ایک پل کا کردار ادا کرتا ہے بلکہ اس سے پانی کے نئے ریلے مختلف علاقوں میں داخل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے دریا پار کرنے کے ذرائع بھی محدود ہو گئے ہیں۔
جنگ کے دوران دریائے نیپر کا نچلا حصہ فرنٹ لائن بنا ہوا ہے جو ایک ہزار کلو میٹرز پر محیط ہے۔ ڈیم کراسنگ بار بار گولہ باری کی زد میں آتی رہی ہے۔ نومبر میں یوکرینی افواج نے ایک کامیاب جوابی کارروائی میں روسی فوج کو دریائے نیپر سے پرے دھکیل دیا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کی فوج نے دریا کے ڈیلٹا اور چھوٹے جزائر پر قبضے کے لیے اسکاؤٹس گروپس کا استعمال کیا، لیکن اب اس کے لیے لاجسٹک چیلنجز مزید بڑھ جائے گے کیوں کہ ڈیم ٹوٹنے سے اب دریا کو عبور کرنا یوکرینی فوج کے لیے مزید مشکل ہو جائے گا۔