رسائی کے لنکس

سعودی عرب شدید گرم موسم میں حاجیوں کی میزبانی کے لئے کس حد تک تیار ہے؟


عازمین حج خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہے ہیں: فوٹواے پی
عازمین حج خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہے ہیں: فوٹواے پی

آئیندہ ہفتے سعودی عرب میں بیس لاکھ مسلمان فریضہ حج ادا کرسکتے ہیں۔ کرونا وبا کے بعد سے یہ پہلا سال ہے، جب اتنی بڑی تعداد میں زائرین سعودی عرب میں اپنا مذہبی فریضہ انجام دیں گے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں سے خطہ عرب بھی متاثر ہو رہا ہے اور شدید گرمی کے موسم میں حج کے ارکان انجام دینا آسان ثابت نہیں ہوگا ۔

سعودی عرب کا منصوبہ ہے کہ ہر سال عازمین حج کی تعداد بڑھائی جائے لیکن اگر سعودی عرب سال 2030 تک اپنی توانائی کی نصف ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قابل تجدید ذرائع پر بھی انحصار بڑھاتا ہے تو بھی اس کا اثر بین الاقوامی سفر ی سہولتوں اور انفرا سٹرکچر پر پڑے گا، جس سے ماحول پر اثرات سنگین تر ہو جائیں گے۔

آئیندہ ہفتے سعودی عرب میں تقریبا دو ملین یعنی بیس لاکھ کے قریب افراد حج کے اراکین کی ادائیگی کے لئے جمع ہونگے۔ سال دو ہزار انیس میں تقریبا اڑھائی ملین یعنی پچیس لاکھ افراد نے حج ادا کیا تھا۔

کورونا وبا کی پابندیوں کے بعد ، یہ پہلا موقعہ ہے جب اتنے بڑے پیمانے پر عازمین حج کو سعودی عرب میں ٹہرانے کے انتطامات کئے گئے ہیں۔ سعودی حکومت نے حجاج کے آرام و آسائش کے وسیع تر انتظامات کئے ہیں۔بین الاقوامی ہوائی سفر میں سہولتوں اور بنیادی ڈھانچے کی توسیع نے حاجیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔

لیکن سعودی عرب کا شدید ترین گرم موسم عازمین حج کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے ۔ آب و ہوا کی تبدیلی نے خطے کو جھلسا کر رکھ دیا ہے ۔ حج کے زیادہ تر ارکان باہر کھلے صحرا میں اد ا کئے جاتے ہیں ،اس لئے عازمین کو اس سے بچانا اور محفوظ رکھنا ،انتہائی دشوار کام ہوتا ہے۔

یمنی مسلمان حج کے لئے مکہ روانگی کے انتظار میں ،صنعا ائر پورٹ پر ۔ اے ایف پی فوٹو
یمنی مسلمان حج کے لئے مکہ روانگی کے انتظار میں ،صنعا ائر پورٹ پر ۔ اے ایف پی فوٹو

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے ملک کو ایک بڑی معا شی طاقت بنانے کے تصور کو ویژن 2030 کا نام دیا گیا ہے ، محمد بن سلمان چاہتے ہیں کہ سن دوہزار تیس تک ، 30 ملین عازمین ،حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لئےان کے ملک آئیں ۔یہ تعداد اس سے کئی گنا زیادہ یعنی دس ملین کا اضافہ ہے، جتنی تعداد میں کرونا وبا سے پہلے حاجی سسعودی عرب آتے تھے۔

اس کے لیے مکہ اور مدینہ میں ہوٹلوں اور دیگر انفراسٹرکچر میں وسیع پیمانے پر توسیع کی ضرورت ہوگی، سعودیہ کے قدیم شہر پہلے ہی اونچی عمارتوں اور شاپنگ مالز کی وجہ سے اپنی شکل تبدیل کر چکے ہیں۔ ایسے میں حاجیوں کی اضافی تعداد کو طویل فاصلوں کی مزید پروازوں، زیادہ بسوں اور کاروں، زیادہ پانی اور بجلی کی ضرورت ہوگی۔

کبوتروں کے جھرمٹ میں ،مکہ کے باہر گرمی میں حاجی فرش پر آرام کر رہے ہیں اے پی فوٹو
کبوتروں کے جھرمٹ میں ،مکہ کے باہر گرمی میں حاجی فرش پر آرام کر رہے ہیں اے پی فوٹو

یہ واضح نہیں ہے کہ ، سعودی حکومت نے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار جمع کئے ہیں کہ زائرین کی آمد سے ماحول پر کیا اثر پڑے گا ،اور شدید گرمی کے اثرات سے انہیں کیسے محفوظ رکھا جائے گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق سعودی حکام نے ان کے رابطہ کرنے پر کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔

رپورٹ کے مطابق کچھ انتظامات اور اقدامات ضروری ہیں،جیسےکہ تیز رفتار ریلوے نیٹ ورک کا قیام ، لیکن یہ اقدامات آلودگی پھیلانے والی ٹریفک کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں ۔

سعودی شہروں کے درمیان چلنے والی ٹرینیں 300 کلومیٹر فی گھنٹہ (186 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے سفر طے کرتی ہیں۔ حجاج کو ایئر کنڈیشنڈ ڈبوں میں آرام سے جدہ سے مکہ تک لے جاتی ہیں، لیکن وہ مسجد الحرام سے کئی کلومیٹر دور رک جاتی ہیں، یعنی حجاج کو یا تو کم از کم ایک گھنٹہ پیدل چلنا پڑے گا یا بس یا کار سے مقدس مقام تک پہنچنا ہوگا ۔ جدہ کے ہوائی اڈے سے مکہ تک 19ڈالر یک طرفہ قیمت بھی کم آمدنی والے حاجیوں کی پہنچ سے باہر ہو سکتی ہے۔

ماہرین نے تحقیق سے پتہ چلایا ہے کہ حج ، موسمیاتی تبدیلیوں کا سبب بنتا ہے اور آنے والی دہائیوں میں یہ زمین دنیا کے گرم ترین مقامات میں سے ایک ہو جائیگی ۔

میلبورن کی وکٹوریہ یونیورسٹی کے ماہرین کی طرف سے 2018 میں حج کے بارے میں کیے گئے ایک مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ پانچ روزہ حج سے 1.8 ملین یعنی اٹھارہ لاکھ ٹن سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیں پیدا ہوئیں۔ نیویارک شہر دو ہفتوں میں اتنی گرین ہاوس گیس پیدا کرتا ہے۔ سب سے زیادہ گرین ہاوس گیسوں کا اخراج ہوائی سفر سے ہوا، جو 87% تھا۔

میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی جانب سے کروائی گئی سال دو ہزار انیس کی ایک سٹڈی کے مطابق ، اگر دنیا آب و ہوا کے بد ترین اثرات پر قابو پانے میں کامیاب بھی ہو گئی تو بھی سال 2047 سے 2052 اور 2079 سے 2086 تک حج انتہائی خطرناک حد تک گرم درجہ حرارت میں ادا کیا جائیگا۔

اسلامی کیلینڈر کے مطابق ہر سال حج پچھلے سال سےدس دن قبل ادا کیا جاتا ہے۔ سال دو ہزار تیس میں حج اپریل کے مہینے میں ادا کیا جائے گا اور اس کے بعد اگلے کئی سال تک حج اور عید الاضحہ سردی کے موسم میں آیا کریں گے۔

حالیہ برسوں میں، سعودی حکام نے مقدس مقامات کے ارد گرد بڑے بڑے سائبان اور پانی کی پھوار والے پنکھے لگائے ہیں تاکہ حاجیوں کو ٹھنڈک پہنچائی جاسکے ۔ مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھتا ہے، حکام کو ممکنہ طور پر شدید موسم کے مقابلے میں انتطامات کو بہتر کرنے یا زیادہ گرمی والے برسوں میں حاجیوں کی تعداد کو محدود کرنے جیسی نئی حکمت عملی متعارف کرانی ہوگی۔

بحرین کی عریبین گلف یونیورسٹی کے پروفیسر اودے جیویسی نے کہا کہ اگر ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کے لیے سمارٹ پالیسیاں اور ٹیکنالوجی موجود ہوں تو حج ، بہتر ماحول میں ہو سکتا ہے۔

مسجد نبوی کے باہر دھوپ سے بچانے کے لئے سائیبان فائل فوٹو
مسجد نبوی کے باہر دھوپ سے بچانے کے لئے سائیبان فائل فوٹو

انہوں نے کہا کہ بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک، دوبارہ قابل استعمال خیموں اور قابل تجدید توانائی کے استعمال سے گرین ہاؤس گیسوں میں کمی آئے گی۔ لاجسٹکس، سفر کو ہموار کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال میں لایا جا سکتا ہے کہ ہوائی جہاز اور بسیں بھری ہوئی ہوں اور زیادہ وقت بیکاری میں نہ گزاریں۔

اس رپورٹ کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیاہے۔

XS
SM
MD
LG