شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں ایران کو مستقل رُکنیت دینے کو بعض ماہرین خطے میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ امریکی پابندیوں کے شکار ایران کے لیے یہ پلیٹ فارم رُکن ملکوں سے روابط بڑھانے میں معاون ہو گا۔
بھارت کی میزبانی میں ورچوئل یعنی آن لائن سربراہی اجلاس میں ایران کو باضابطہ طورپر تنظیم کی مستقل رکنیت دے دی گئی۔
چین اور روس نے 2001 میں ایس سی او کی تشکیل میں اہم کردار اد ا کیا تھا جس میں اب بھارت، پاکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ ایران کے اس پلیٹ فارم میں باضابطہ طور پر شامل ہونے کے بعد اس یوریشین تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد نو ہو گئی ہے۔
ایران کا ایس سی او کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کا معاملہ نہ صرف خطے کے ممالک کے لیے ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی یہ معاملہ توجہ کا مرکز ہے ۔
امریکی تعزیرات کی وجہ سے ایران خطے کے ملکوں چین ، روس اور بھارت جیسے اہم ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دینے کے لیے کوشاں رہا ہے۔
کیا ایران پر عائد تعزیرات کا دباؤ کم ہو سکےگا؟
مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی تنظیم کا رکن بننا جس میں خطے کے اہم ممالک بھارت، روس اور چین بھی شامل ہیں ایران کی سفارتی کامیابی ہے۔ لیکن بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے مستقبل قریب میں خطے کی سیاسی صورتِ حال میں کسی بڑی تبدیلی کا فوری امکان کم ہے۔
دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار پراوین ساہنی کہتے ہیں کہ ایران کا ایس سی او کا مستقل رکن بننا نہایت اہمیت کا حامل ہے جب ان کے خیال میں خطے میں طاقت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے۔
نئی دہلی سے فون پر وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ساہنی کا کہنا تھا کہ ایران اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے ایس سی او میں نہایت اہمیت اختیار کر جائے گا۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب بڑی طاقتوں کی اسٹرٹیجک مسابقت کی وجہ سے خطے میں دوررس تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
ایران کو ایک عرصے سے جوہری پروگرام کی وجہ سے امریکہ اورمغربی ممالک کی تعزیرات کا سامنا ہے۔لیکن ساہنی کہتے ہیں کہ ایس سی او کا رکن بننے کے بعد تہران کے لیے ان تعزیرات کے اثرات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ایس سی او میں متبادل کرنسی میں تجارت کی بات کیوں؟
ایران پر عائد تعزیرات کی وجہ سے تیل کی مصنوعات کی ڈالر میں تجارت کرنا مشکل تھا۔ لیکن ماہرین کے مطابق ایس سی او کا رکن بننے کے بعد اب شاید ایران کے لیے ایک موقع پیدا ہو سکتا ہے کہ کسی متبادل کرنسی میں تجارت کر سکے۔
چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ورچوئل اجلاس سے اپنے خطاب میں رُکن ملکوں کے درمیان متبادل کرنسی میں تجارت کی حمایت کی۔ ماہرین کے مطابق دونوں رہنماؤں کے یہ بیانات یقیناً ایران کے لیے حوصلہ افزا ہوں گے جو متبادل کرنسی میں تجارت کا خواہاں رہا ہے۔
ایران پر پہلے سے ہی تعزیرات عائد ہیں جب کہ روس کو بھی یوکرین جنگ کی وجہ سے مغربی ممالک کی طرف سے تعزیرات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ایران اور روس اپنی تجارت غیر ڈالر کرنسی میں کرنا اپنے لیے مفید سمجھتے ہیں۔
ایران ایک ایسے وقت میں ایس سی او کا رکن بنا ہے جب حال ہی میں چین کی کوششوں سے سعودی عرب اورایران میں سفارتی اور سیاسی تعلقات دوبارہ بحال ہو ئے ہیں۔
تجزیہ کار ساہنی کہتے ہیں کہ یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ خطے میں جیو پالیٹکس تبدیل ہو رہی ہے ایران کا ایس سی او کا رکن بننا اس کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ خطے میں تیل برآمد کرنے والے ممالک ایران اور سعودی عرب ہیں اور تیل درآمد کرنے والے ممالک میں چین اور بھارت شامل ہیں۔
'ایران کی ایس سی او کی رکنیت خطے کے لیے کیوں اہم ہے؟
پاکستان کے سابق سفارت کار اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ ایس سی او کے تمام بڑے ممالک بشمول بھارت ، روس اور چین ،ایرن کو رکنیت دینے کے خواہاں ر ہے ہیں۔
دوسری جانب ایران کا سی ای او کا رکن بننا اسی رجحان کی عکاسی کرتا ہے کہ چین کا خطے میں اثر وسوخ بڑھ رہا ہے کیوں کہ حال ہی میں چین نے سعودی عرب اور ایران کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ بھارت بھی ایران کو ایس سی او کی مستقل رکنیت دینے کا خواہاں تھا کیوں کہ بھارت وسط ایشائی ریاستوں ، یوریشیا کے علاقوں تک پہنچنے کے لیے ایران کی چاہ بہار اور بندر عباس کی بندرگاہوں کا استعمال کرنے کا خواہاں رہا ہے۔
اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ ایران کی ایس سی او میں شمولیت سے علامتی طور پر ان کے خیال میں مغربی ملکوں کو یہ پیغام ملے گا کہ روس اور چین خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔
اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ ایران کے ایس سی او میں شامل ہونے سے پاکستان کے لیے کئی امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور ایران کے ساتھ بھی معاملات اور بہتر ہو سکتے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ شاید ایس سی او کے ذریعے روس اور چین خطے میں اپنے اسٹرٹیجک مفادات کو آگے بڑھا سکتے ہیں جس پر مغرب کو بھی تشویش ہو سکتی ہے ۔
لیکن سابق سفارت کار اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ انہوں نے اس مفروضے کو کبھی اہمیت نہیں دی کیوں کہ ان کے خیال میں معاملات یہ رخ اختیار نہیں کریں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ ایس سی او کے تمام ممالک ماسوائے ایران کے مغرب کے ساتھ تعلقات رہے ہیں اس لیے وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ایس سی او کسی طرح کا سیکیورٹی بلاک بن سکتا ہے۔
ایس سی او کے ممالک میں آبادی دنیا کی آبادی لگ بھگ 40 فی صد سے زائد ہے اور ان ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کی مجموعی پیداوار کا لگ بھگ ایک تہائی ہے اور خطے میں توانائی کے وافر ذرائع موجود ہیں۔
اعزازچودھری کہتے ہیں کہ جیسے جیسے دیگر ممالک اس پلیٹ فارم میں شامل ہو تے جائیں گے اس تنظیم کامحور اقتصادی ہوتا جائے گا۔
ایس سی او تنظیم کے رکن ممالک نے ابتدائی طور پر سیکیورٹی تحفظات کی وجہ سے آپس میں تعاون کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن ان کے خیال میں اس تنظیم کا فوکس اقتصادی ہو گا جو ان کے بقول زیادہ پائیدار ہو گا۔
اعزا ز چودھری کہتے ہیں کہ ایس سی او کے تما م رکن ممالک ایک دوسرے کی معیشت کے لیے تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر ایشیا کے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ سیکیورٹی تعاون پر توجہ مرکوز رکھیں گے تو یہ ان کے لیے بہتر ہوگا۔
اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہر ایک ملک تعلقات اچھے رکھنا چاہتا ہے او ربھارت کے روس کے ساتھ بھی دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے معاملات کا ایک خاص پس منظر ہونے کی وجہ سے ان کے باہمی تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔
اعزاز چوھری کہتے ہیں کہ اس وجہ سے شاید بھارت کے ایس سی او کے بعض رکن ممالک کے ساتھ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں کیوں کہ بھارت خطے میں اپنے اثر ور سوخ میں اضافہ کرنے کی کوشش کرےگا۔
اس سال بھارت کے پاس جی ٹوئٹنی اور ایس سی او کی صدارت ہے لیکن بھارت کی طرف سے ایس سی او کا جلاس ورچوئل فارمیٹ کرنے کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت ا یس سی او کو شاید اتنی اہمیت نہیں دے رہا ہے جتنی وہ جی ٹوئنٹی کو دے رہا ہے جس میں امریکہ شامل ہے۔
بعض مبصرین یہ بھی کہتے ہیں یوکرین جنگ کی وجہ سے صدر پوٹن اس اجلاس کو ورچوئل کرنے کے خواہاں تھے تاکہ ان کی توجہ روس کے اندرونی معاملات پر مرکوز رہے۔
منگل کو ہونے والے ایس سی او کے اجلاس میں بھارت اور پاکستانی قیادت نے ایک دوسرے ملک کا نام لیے بغیر دہشت گردی کے معاملے کو اٹھایا ۔ ماضی میں بھی بھارت اور پاکستان ایک دوسرے پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتے ہیں اور دونوں ہی ان کو مسترد کرتے ہیں۔
ساہنی کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان ایس سی او تنظیم کی ترقی کو روک رہے ہیں کیوں کہ ایس سی او میں تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے کرتے ہیں لیکن انہوں نے کہا جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کی طرح ایس سی او میں بھی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو چین اور روس کو نظر آئیں گے۔