افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندۂ خصوصی آصف درانی تین روزہ سرکاری دورے پر کابل میں موجود ہیں جہاں ان کی طالبان حکومت کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں جاری ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ 12 جولائی کو بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد آصف درانی کا دورہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
سفارتی حلقوں کے مطابق آصف درانی پاکستانی حکام کی جانب سے سخت اور واضح پیغام لے کر کابل گئے ہیں۔
جمعرات کو کابل پہنچنے پر انہوں نے طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔
افغان امور کے ماہر اور سینئر تجزیہ کار طاہر خان کے مطابق آصف درانی کا دورۂ افغانستان طے شدہ تھا، تاہم بلوچستان میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے باعث سیکیورٹی معاملات ایجنڈے میں سرِفہرست ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ژوب واقعے کے بعد پاکستان کے عسکری اور سویلین حکام کی جانب سے سخت لب و لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس کے ردِعمل میں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی سخت الفاظ کا چناؤ کیا۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے گزشتہ ہفتے ضلع ژوب میں فوجی چھاؤنی پر حملے کے نتیجے میں نو اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔
واقعے کے بعد پاکستانی فوج نے کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے افغانستان میں موجود مبینہ ٹھکانوں اور دہشت گردی کے لیے آزادانہ ماحول کو حملے کی وجہ قرار دیا تھا۔
ردِعمل میں ذبیح اللہ مجاہد نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں دہشت گردی کے واقعات کو افغانستان سے جوڑنے کو حقائق کے برخلاف قرار دیا تھا۔
'پاکستانی حکام کے بیانات کو دھمکی کے طور پر لیا گیا تھا'
طاہر خان کہتے ہیں کہ اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ ہے۔
اُن کے بقول پاکستانی حکام کے بیانات کو افغانستان میں دھمکی کے طور پر لیا گیا ہے۔ لہذٰا ایسے ماحول میں آصف دُرانی کے لیے اعتماد کی بحالی بڑا چیلنج ہو گا۔
طاہر خان کے بقول دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت کافی پیچیدہ ہے۔ پاکستان کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے حال ہی میں طالبان نے سرحدی علاقوں سے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو دور کر دیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ سرحد پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر کئی روز سے کوئی حملہ نہیں ہوا تھا۔ لیکن ژوب واقعے نے ایک بار پھر ماحول کشیدہ کر دیا ہے۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ ژوب حملے کے باوجود پاکستان کی جانب سے اتنے شدید ردِعمل کی توقع نہیں تھی کیوں کہ پاکستان عالمی برادری پر زور دیتا رہا ہے کہ افغان طالبان کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل حل کیے جائیں۔
'افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی چیلنج ہے'
طاہر خان کہتے ہیں کہ طالبان حکومت کے لیے ٹی ٹی پی ایک چیلنج ہے۔
اُن کے بقول افغانستان پر امریکہ کے حملے کے بعد ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں نے افغان طالبان کے جنگجوؤں کو پناہ دی تھی۔ اب جب ٹی ٹی پی کو ضرورت پڑی ہے تو افغان طالبان اُنہیں پناہ دے رہے ہیں۔
طاہر خان کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے سپریم کمانڈر ہبت اللہ اخوندزادہ کے ہاتھوں میں بیعت بھی کر رکھی ہے۔ لہذٰا دونوں گروپوں کے درمیان نظریاتی قربتیں بھی ہیں۔
'پاکستان افغانستان کے معاملات کا کنٹرول اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے'
افغانستان کے مختلف صوبوں کے سابق افغان گورنر محمد حلیم فدائی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ وہاں کے سیاسی معاملات وہ اپنے کنٹرول میں رکھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ موجودہ طالبان حکومت بھی اب پاکستان سے بدظن ہو رہی ہے۔
محمد حلیم فدائی کے مطابق اُنہیں نہیں لگتا کہ آصف دُرانی کا دورۂ کابل کامیاب ہو گا کیوں کہ پاکستان عرصۂ دراز سے ٹی ٹی پی کے معاملے کو افغانستان سے جوڑ رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی حکام افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے الزام کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں عوام کی اُمنگوں کے مطابق جامع حکومت کے قیام کی خواہاں ہے۔
سابق گورنر کے مطابق حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں پاکستان کو یہ گلہ تھا کہ وہاں موجود بھارتی قونصل خانے پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ لیکن ثبوت مانگنے پر کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جاتا تھا۔
عبدالحلیم فدائی کے مطابق اب تو افغانستان میں پاکستان دوست حکومت ہے۔ وہاں بھارت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تو پھر وہاں سے حملوں کی بات کیوں کی جاتی ہے؟
خیال رہے کہ سن 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت آنے پر اس وقت پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ افغان عوام نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔
پاکستان میں بھی یہ تاثر عام تھا کہ اب افغانستان میں پاکستان کی حامی حکومت آ گئی ہے اور اب پاکستان میں دہشت گردی کم ہو گی۔ تاہم دو برس کے دوران سرحد پر باڑ لگانے سمیت دہشت گردی کی کئی کارروائیوں کے باعث دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔