پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ ایسے ڈراموں سے بھری پڑی ہے جو کسی نہ کسی اصل واقعے پر مبنی ہوں، اسی اور نوے کی دہائی میں نشانِ حیدر سیریز ہو یا پھر افواجِ پاکستان سے متعلق ٹیلی فلمیں ان میں سے کئی نے عوامی مقبولیت حاصل کی۔
تاہم اس وقت جیو انٹرٹینمنٹ پر نشر ہونے والا ڈرامہ 'حادثہ' ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، اس ڈرامے کی کہانی 2020 میں ہونے والے افسوس ناک موٹروے ریپ کیس سے مماثلت رکھنے کی وجہ سے تنقید کا شکار ہے۔
ڈرامے میں اداکارہ حدیقہ کیانی نے مرکزی کردار ادا کیا ہے جب کہ اداکار علی خان، اور ژالے سرحدی بھی اس کا حصہ ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین اب پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔
'حادثہ' کا اسکرپٹ زنجبیل عاصم شاہ نے لکھا ہے جب کہ وجاہت رؤف نے اس کی ہدایات دی ہیں۔ ان کی اہلیہ شازیہ وجاہت اس ڈرامے کی پروڈیوسر ہیں جن کا پچھلا ڈرامہ 'پنجرہ' بھی اپنے انوکھے موضوع کی وجہ سے کافی مقبول ہوا تھا۔
خیال رہے کہ ستمبر 2020 میں رات گئے لاہور سے گوجرانوالہ کی طرف سفر کرنے والی خاتون کو سیالکوٹ موٹروے پر اُن کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
دوران سفر گاڑی کا پیٹرول ختم ہو جانے پر دو افراد نے گاڑی کا شیشہ توڑ کر خاتون اور اس کے بچوں کو نکالا۔ موٹر وے کے گرد لگی جالی کاٹ کر سب کو قریبی جھاڑیوں میں لے گئے۔
اس ڈرامے پر تنازع اس وقت شروع ہوا جب معروف صحافی فریحہ ادریس نے 28 اگست کو حادثہ کی قسط کے بعد ایک پوسٹ ڈالی تھی جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ موٹروے حادثے کی متاثرہ خاتون کی ان سے گفتگو ہوئی ہے۔
اس پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاتون نے ڈرامے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والے واقعے پر ڈرامہ بنانا ناقابلِ برداشت ہے، جس سے انہیں تکلیف پہنچی ہے۔
اسی پوسٹ میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ خاتون کو سب سے زیادہ فکر اپنے ساتھ ہونے والے واقعے کی ڈرامائی تشکیل سے تھی جسے ٹی وی ناظرین اور ان کے عزیز و اقارب نے بھی دیکھا۔
بعدازاں سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ صارفین کے غم و غصے کو دیکھ کر حدیقہ کیانی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) میں واضح کیا کہ ڈرامے کی کہانی موٹروے والے واقعے پر مبنی نہیں، اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی اس میں کام نہ کرتیں۔
حدیقہ کیانی نے مزید کہا کہ انہیں اس ڈرامے میں مرکزی کردار کی پیش کش کی گئی تھی تو انہوں نے پروڈکشن ٹیم سے پہلا سوال یہی کیا تھا کہ کہیں اس کی کہانی موٹروے پر ہونے والے ہولناک واقعے کے گرد تو نہیں گھومتی۔
انہوں نے کہا کہ پروڈیوسرز کی جانب سے جواب نفی میں آنے پر ہی انہوں نے اس میں کام کرنے کی حامی بھری۔
حدیقہ کیانی نے مزید لکھا کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم معمول ہیں، لہذٰا کسی ایک واقعے سے اس ڈرامے کو جوڑنا درست نہیں ہے۔
اُن کے بقول وہ امید کرتی ہیں کہ اس ڈرامے کے ذریعے ایسے واقعات میں کمی آئے گی جس کا شکار ہمارے ملک میں آئے روز خواتین ہوتی ہیں۔
اس واقعے پر شدید عوامی ردِعمل سامنے آیا تھا اور خواتین کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مطالبات سامنے آئے تھے۔
معروف صحافی اور انسانی حقوق کی علم بردار لبنی جرار نقوی نے ڈرامہ سیریل 'حادثہ' بنانے والوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اصل واقعے کے اتنے کم وقت کے بعد ڈرامہ بنانے کی منطق ان کی سمجھ میں نہیں آئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک ایسے خوفناک واقعے کو ڈرامائی شکل دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔
لبنی سمجھتی ہیں کہ اصل واقعات پر مبنی پروگرامز کو دیکھ کر متاثرین کی تلخ اور ہولناک یادیں تازہ ہو سکتی ہیں۔
اُن کے بقول دنیا بھر میں جہاں بھی 'ری انیکٹمنٹ شوز' میں جرائم کو دوبارہ فلمایا جاتا ہے وہاں باقاعدہ ریسرچ کی جاتی ہے۔
ان کے بقول سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان لوگوں کی رضا مندی حاصل کی جاتی ہے جن کے خلاف ہونے والے جرائم کو اسکرین پر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اسے کم از کم اجازت لے کر کرنا چاہیے ورنہ تو یہ جرم ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صرف ایک ڈرامہ بنانے کے لیے ایک انسان کی نفسیات سے کھیلنا درست نہیں ہے۔
لبنی جرار نقوی نے 2017 میں نشر ہونے والے ڈرامے 'اُڈاری 'کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس مہارت سے اس میں بچوں کے خلاف جنسی واقعات کو پیش کیا گیا تھا وہ دوسروں کے لیے ایک مثال ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک پیمرا میں صحافی اور میڈیا کے افراد کو شامل نہیں کیا جائے گا تب تک ایسے پروگرام بنتے رہیں گے۔یاد رہے کہ گزشتہ روز متاثرہ خاتون کی ایک مقامی صحافی سے مبینہ گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سے 'حادثہ' کے بارے میں صارفین کا منفی ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔
فورم