رسائی کے لنکس

قطر کی ثالثی میں زیر حراست اسرائیلی اور فلسطینی خواتین اوربچوں کے تبادلے پرمذاکرات


خبر رساں ادارے رائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ قطر کے ثالثوں نے حماس کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والی اسرائیلی خواتین اور بچوں کی رہائی کے بارے میں حماس کے عہدیداروں سے فوری طور پر بات چیت کی ہے تاکہ اس کے بدلے میں اسرائیل کی جیلوں سے 36 فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی ممکن ہو سکےجنہیں غزہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔

قطر کی وزارت خارجہ نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو تصدیق کی ہے کہ وہ حماس اور اسرائیلی حکام کے ساتھ ثالثی کے مذاکرات میں شامل ہے اور بات چیت میں قیدیوں کےممکنہ تبادلے پر غور ہو رہا ہے ۔

وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے رائٹرز کو بتایا کہ ’’ہم اس وقت تمام فریقوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ خونریزی کا خاتمہ، قیدیوں کی رہائی اور اس بات کو یقینی بنانا ہماری ترجیحات میں شامل ہے کہ یہ تنازعہ علاقے میں مزید نہ پھیلنے پائے۔‘‘

رائٹرز کی اس رپورٹ کے جواب میں ایک اسرائیلی اہل کار نے صرف اتنا کہا کہ ’’ ِاس وقت کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ہیں۔‘‘

کیا حماس اور اسرائیل کی لڑائی رک پائے گی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:13 0:00

قطر امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہفتے کی رات سے یہ مذاکرات کر رہا ہے۔ ان مذاکرات کے بارے میں بریفنگ حاصل کرنے والے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ ’’ مذاکرات کا سلسلہ مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔‘‘ تاہم کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں کیونکہ دونوں فریق اب بھی کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

اسرائیلی جیلوں سے 36 فلسطینیوں کی رہائی پر مرکوز ان مذاکرات کے بارے میں پہلے سے کوئی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ادھر غزہ میں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی تعداد بھی واضح نہیں ہے ۔ تاہم بڑے پیمانے پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ حماس نے خواتین، بچوں، بوڑھوں اور فوجیوں کو ہفتے کے روز تحویل میں لے لیا تھا۔

حماس اور اسرائیل کے ساتھ ماضی میں ثالثی کی کوششوں سےآگاہ ایک فلسطینی اہل کار نے رائٹرز کو بتایا کہ قطر اور مصر ، گروپ کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن لڑائی کی شدت کی وجہ سے کسی بھی ممکنہ پیش رفت کے بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں ۔

اسرائیل نے حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں جوابی کارروائی کرتے ہوئے اپنے اب تک کے سب سے شدید حملے کیے ہیں۔ ان حملوں میں ہفتے کے روز سے اب تک تقریباً 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے ناکہ بندی کو سخت کر دیا جائے گا تاکہ خوراک اور ایندھن کو غزہ کی پٹی میں لانے سے روکا جا سکے۔

اس علاقے میں 23 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں۔ مصر کے دو سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ مصر، اسرائیل اور حماس کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے تاکہ لڑائی کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے اور اسرائیلی یرغمالیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

اسرائیل فلسطینی تنازعہ آرائی
اسرائیل فلسطینی تنازعہ آرائی

مصری ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مصر نے اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا ہے اور حماس پر زور دیا ہے کہ وہ قیدیوں کو اچھی حالت میں رکھے تاکہ کشیدگی میں جلد کمی کے امکانات کو کھلا رکھا جاسکے، حالانکہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں نے ثالثی کے عمل کو مشکل بنا دیا ہے۔

قطر کی قیادت میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں بریفنگ حاصل والے ذریعے نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ ’’ رہائی کے لیے کسی طریقہ کار یا لاجسٹکس پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔‘‘

قطر کی وزارت خارجہ، حماس یا امریکی محکمہ خارجہ کو بھیجی گئی تبصرے کی درخواستوں کا فوری طور پر کوئی جواب نہیں ملا۔ اسرائیل کے وزیر اعظم کے دفتر نے کہا ہےکہ وہ اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔

اسرائیل حماص جنگ میں اب تک تقریبا ایک ہزار ہلاکتیں
اسرائیل حماص جنگ میں اب تک تقریبا ایک ہزار ہلاکتیں

اسرائیلی حملے اور غزہ میں پکڑے جانے والےاسرئیلی شہریوں کی تصاویر پر وہ خوفزدہ ہیں ۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کارروائی کرے گا اور کسی بھی قیدی کو پس پشت نہ ڈالنے کے دیرینہ اصول پر عمل کرے گا۔

تاہم اسرائیل میں دراندازی پر حماس کو نشانہ بنانے کے لیے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا انتخاب اس لیے محدود ہو جاتا ہے کیونکہ متعدد اسرائیلیوں کی حراست تشویش کی وجہ ہے۔ ماضی میں یرغمال کے بحران کا سامنا کرنے والی ایک قوم کے طور پر شاید اس وقت اسے بدترین حالات کا سامنا ہے۔

قطر ایک چھوٹا لیکن توانائی کے وسائل اور سرمایہ کاری کی طاقت رکھنے والے ملک کے طور پر خارجہ پالیسی کےواضح اہداف رکھتا ہے اور اس کا حماس کے ساتھ براہ راست رابطہ بھی ہے۔ قطری سفیر اس سے قبل بھی اسلام پسند گروپ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی میں ثالثی کے فرائض ادا کر چکے ہیں۔

دوحہ حال ہی میں امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کی ایک سال سے زائد عرصے تک میزبانی کرنے کی وجہ سے عالمی سفارت کاری کی توجہ کا مرکز رہا ہے جس کے نتیجے میں قیدیوں کے تبادلے اور فنڈز کی منتقلی ممکن ہوئی۔

حماس کی طاقت کا مرکز غزہ میں ہے تاہم اس کے کچھ رہنما قطر کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں بھی مقیم ہیں۔ اسرائیل میں جھڑپیں جاری ہیں کیونکہ حماس کے جنگجو ’’توقع سے زیادہ دیر‘‘ تک ڈٹے ہوئے ہیں ۔

فورم

XS
SM
MD
LG