اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے باعث مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر افغانستان میں طالبان کے سپریم کمانڈر ہبت اللہ اخوندزادہ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس کے برعکس ایران کی حکومت جنگ کے آغاز ہی سے تندوتیز اسرائیل مخالف بیان دے رہی ہے۔
اگرچہ ہبت اللہ اخوندزادہ کا کوئی ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہیں ہے لیکن ان کے جاری کردہ فرمان اور بیانات طالبان کے پلیٹ فورمز اور دیگر ذرائع سے عام کیے جاتے ہیں۔
طالبان حکومت میں اخوند زادہ کے نائب تصور ہونے والے ملا محمد حسن اور ان کے نائب وزرائے اعظم بھی حالیہ صورتِ حال پر خاموش ہیں۔ تاحال اس معاملے پر جس اعلیٰ ترین رہنما نے خاموشی توڑی ہے وہ طالبان حکومت کے وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی ہیں۔
سراج الدین حقانی تاحال امریکہ کے مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں اور ان کی گرفتاری میں مدد کرنے پر رکھا گیا ایک کروڑ ڈالر کا انعام بھی برقرار ہے۔
گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں سراج الدین حقانی نے کہا تھا کہ ہم کسی کے ’داخلی معاملات‘ میں دخل انداز نہیں ہوتے لیکن ایمانی بنیادوں پر مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں غزہ کا محاصرہ کرنے پر اسرائیل کی مذمت کی تھی اور بین الاقوامی برادری سے بحران حل کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
معمول کا بیان
تھنک ٹینک ولسن سینٹر سے وابستہ ماہر مائیکل کوگلمین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کی جانب سے بھی فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ویسا ہی ایک پیغام دیا گیا ہے جیسا ہم دیگر مسلم ممالک کی جانب سے دیکھتے آ رہے ہیں۔
سابق افغان سفارت کار اور تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے وابستہ جاوید احمد کا کہنا ہے کہ طالبان نے بہت ناپ تول کر بیانات دیے ہیں جن میں صرف فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار کیا گیا ہے, اس لیے کہ طالبان کے حماس سے رسمی روابط نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سینئر طالبان رہنما توقع کرتے ہیں کہ اس بحران کے حل اور تشدد کے خاتمے کے لیے غیر عرب ممالک کی جانب دیکھنے کے بجائے پڑوسی عرب ممالک اپنا کردار ادا کریں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع پر طالبان جیسے گروہ کا محتاط رویہ اس لیے بھی بعض لوگوں کے لیے حیران کُن ہیں کہ ان کے حامی یہ سمجھتے تھے کہ وہ خدائی مدد سے ایک سپر پاور اور نیٹو اتحادیوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوئے۔
رواں ماہ اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد امریکی ایوانِ نمائندگان کی امورِ خارجہ کمیٹی کے چیئرمین مائیکل مکال نے کہا تھا کہ انہیں ایسے آثار محسوس ہوتے ہیں کہ طالبان "یروشلم کی آزادی" اور طالبان کے بقول"صیہونیت سے لڑائی" کے لیے آگے آنا چاہیں گے۔
تاہم طالبان ایسے تمام الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
بعض افغان اسرائیل حماس جنگ سے متعلق طالبان کی خاموشی پر تنقید بھی کررہے ہیں۔
طالبان مخالف ملیشیا کے معروف لیڈر اور سابق افغان گورنر عطا محمد نور نے سوشل میڈیا پلیٹ فورم ایکس(سابقہ ٹوئٹر)پر ایک آڈیو پوسٹ کی ہے جس میں طالبان سے غزہ کے دفاع کے لیے بیانات دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس آڈیو کو "افغانستان کے عوام کے لیے فلسطین سے ایک بہن کا پیغام" کا ٹائٹل دیا گیا ہے اور آڈیو کلپ کے ساتھ عربی میں جاری بیان پر دری زبان میں متن بھی دیا گیا ہے۔
افغان پارلیمںٹ کی سابق رکن مریم سلیمان خیل نے اپنے ایک بیان میں طالبان کے ترجمان کے بیان کو"کھوکھلا" قرار دیا اور سوال اٹھایا ہے کہ "آپ عملی طور پر کیا کیا رہے ہیں؟"
دوحہ معاہدہ
فروری 2020 میں قطر کے شہر دوحہ میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں طالبان اس بات کے پابند ہیں کہ وہ افغانستان میں امریکہ یا اس کے کسی اتحادی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے لیکن اس کے لیے طالبان کی کوئی زبانی حمایت دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے میں بہت وضاحت کے ساتھ ان خطروں کا تعین کر دیا گیا تھا۔ معاہدے کی شرائط کے مطابق طالبان پابند ہیں کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
ان کے بقول حماس کی حمایت میں احتجاج یا افغانستان میں اسرائیل مخالف سرگرمیاں اس پابندی کے خلاف نہیں جاتیں۔
افغانستان میں مبینہ طور پر لگ بھگ ایک درجن دہشت گرد گروپس کے ٹھکانے ہیں۔ اگر ان گروپس کو نہ روکا گیا تو یہ نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی امن کے لیے بھی خطرہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
لیکن جاوید احمدکے مطابق جہاں تک افغانستان میں ان گروپ کی موجودگی کا سوال ہے، ان کے مقابلے میں غزہ سے متعلق طالبان کا رویہ زیادہ محتاط ہے۔
طالبان کو افغانستان کا کنٹرول حاصل کیے دو برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس دوران داعش خراسان گروپ پورے افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور طالبان بھی اسے اپنے لیے بڑا چیلنج تصور کرتے ہیں۔
داعش خراسان شیعہ اکثریتی ملک ایران کے ساتھ حماس کے تعلقات کی وجہ سے اس کی حمایت نہیں کرتی۔
مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ داعش خراسان یا افغانستان میں کوئی دوسرا دہشت گرد گروپ یا تو حماس سے یک جہتی یا حماس کی مسابقت میں حساب برابر کرنے کے لیے کوئی کارروائی کرسکتا ہے۔
فورم