حماس اور اسرائیل کی جنگ جاری ہے۔ لیکن اس کی قیمت صرف فلسطینیوں اور اسرائیلیوں ہی کو ادا نہیں کرنی پڑ رہی۔ بلکہ ان لوگوں کو بھی ادا کرنی پڑ رہی ہے جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں اور اس جنگ میں فریق نہیں ہیں۔
اسی حوالے سے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے آغاز سے اب تک اس کے عملے کے 29 ارکان غزہ میں مارے جا چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ’یو این آر ڈبلیو اے‘ نے ایک بیان میں بتایا کہ’’ ہم صدمے کی حالت میں ہیں کیوں کہ ہمارے 29 ساتھی مصدقہ طور پر اب تک مارے جا چکے ہیں۔‘‘
دوسری جانب غزہ میں طبی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے فضائی حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے سے زائد فلسطینیوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک غیر متوقع حملہ کیا تھا جس میں 1400 اسرائیلیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تھی۔ اس کے بعد اسرائیل میں اموات کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا ۔
ادھر اسرائیلی طیاروں نے پیر کی صبح لبنان میں حزب اللہ کے دو ٹھکانوں پر حملہ کیا۔
اسرائیل کی فوج کے مطابق جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں سے اسرائیل پر ٹینک شکن میزائل اور راکٹ حملوں کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔
دریں اثناء مصر کی فوج کے ترجمان نے اتوار کو ایک بیان میں بتایا کہ اسرائیل کے ٹینک کے گولے سے غزہ کی سرحد کے قریب مصری فورسز کی چوکی پر متعدد اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
مصر کی فوج نے کہا کہ اسرائیلی ٹینک سے غلطی سے چل جانے والے شیل کے ٹکڑے اہلکاروں کو لگے ہیں۔
اسرائیل کی فوج نے بھی واقعے کی تصدیق کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
غزہ میں امدادی سامان کا دوسرا قافلہ بھی اتوار کو پہنچ گیا ہے۔قبل ازیں ہفتے کو بیس ٹرک طبی سامان، غذائی اشیاء اور پانی لے کر غزہ گئے تھے جو دو ہفتوں کے دوران پہلی بار غزہ میں امداد کی آمد تھی۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ بدھ تک اس کے پاس ایندھن ختم کو جائے گا اور پھر ایسے میں مزید مدد پہنچانا پیچیدہ ہو جائے گا۔
حماس کے جنگجوؤں پر اسرائیل کے فضائی حملے بھی جاری ہیں جب کہ غزہ میں اسرائیل کے زمینی حملے کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے۔
دریں اثنا امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو سے بات کرنے کے بعدامریکہ، فرانس ، برطانیہ، جرمنی ، اٹلی اور کینیڈا کی میٹنگ کی جسے کوئنٹ کا نام دیا جاتا ہے۔
ادھر حماس کے ایک بیان کے مطابق حماس کےلیڈر اسماعیل ہانیہ اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد الہیان نے اتوار کے روز ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔
حماس کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران ان طریقوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا جن کے ذریعے اسرائیل کے جرائم کو روکا جا سکے۔
اتوار ہی کے روز جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے دفتر کے باہر سینکڑوں مظاہرین نے ان یرغمالوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جنہیں حماس نے اسرائیل پر حملے کے دوران پکڑ لیا تھا۔
اس مظاہرے کا اہتمام وائس آف فریڈم نامی اتحاد نے کیا تھا جس میں متعدد مسیحی اور یہودی آرگنائزنگ کمیٹیاں شامل تھیں۔
اس رپورٹ کے لیے مواد خبر رساں اداروں ایسوسی ایٹڈ پریس، اے ایف پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے۔