پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں فردِ جرم عائد کر دی گئی ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے پیر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائد کی۔
خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں کیس کی سماعت کی جہاں عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے صحتِ جرم سے انکار کیا۔
عدالت نے کیس کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے جب کہ کیس کے گواہ بھی طلب کر لیے ہیں۔
قبل ازیں خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین تحریکِ انصاف کی فردِ جرم روکنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔
سماعت کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اسپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ آج کا دن فردِ جرم عائد کرنے کے لیے مقرر تھا۔
انہوں نے کہا کہ چالان کی نقول تقسیم کرنے کے حوالے سےآج بھی وکلا کی جانب سے بحث کی گئی۔ سائفر کیس میں فردِ جرم عائد کیے جانے کے وقت چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی عدالت میں موجود تھے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ آئندہ سماعت پر استغاثہ کے گواہان کو عدالت نے طلب کر لیا ہے۔
بعد ازاں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وکیل عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ فردِ جرم عائد کرنے کے لیے آج تاریخ مقرر تھی۔
ان کے بقول ان کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ گواہان کے مکمل بیانات ہونے اور، اور سیزمیمو ،نہ ملنے تک فردِ جرم عائد نہیں ہو سکتی۔ تاہم عدالت نے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے فردِ جرم عائد کی۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق عثمان ریاض گل ایڈووکیٹ نے مزید کہا کہ فردِ جرم پر دستخط کرتے وقت لکھا گیا کہ مکمل کاغذات ملنے تک فردِ جرم کو رسپانڈ نہیں کر سکتے۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے ترجمان عمیر نیازی ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان نے صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔
انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ فردِ جرم کے آرڈر کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
ان کے بقول عمران خان نے عدالت میں کہا کہ ان کے خلاف کیا الزام ہے۔ سازش تو ان کے خلاف ہوئی کیوں کہ ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور جس اجلاس کا ذکر کیا گیا ہے اس کے منٹس بھی موجود نہیں جب کہ سائفر کا ذکر کیا گیا لیکن وہ کاغذات میں موجود ہی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اب اس کیس کی باقاعدہ سماعت 27 اکتوبر سے شروع ہوگی۔
سائفر کیس کیا ہے؟
عمران خان نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار امریکہ کو قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ایک خط لہرایا تھا جو ان کے مطابق وہ مبینہ سائفر تھا جو پاکستانی سفیر نے امریکہ سے بھیجا تھا جس میں مبینہ طور پر امریکہ کی طرف سے ان کی حکومت کو ہٹانے کا کہا گیا تھا۔
امریکہ اس بارے میں عمران خان کے تمام الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔امریکی محکمۂ خارجہ کی پریس بریفنگزمیں بھی اس بارے میں متعدد بار پوچھے گئے سوالات میں عمران خان کے الزامات کو مسترد کیا گیاہے۔
اپریل 2022 میں سیاسی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔
عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی طور پر استعمال کیا اور اپنی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے حکومت ختم کرنے کی سازش کی۔
بعد ازاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی اس سازش میں شامل قرار دیا۔
اس سائفر کی تحقیقات کا آغاز شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے ایف آئی اے کے ذریعے کیا تھا۔
اس کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان، سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور سابق وفاقی وزیر اسد عمر نامزد ہیں۔