پاکستان کو رواں مالی سال میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے تقریباً 25 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں اور اسی طرح اگلے سال بھی پاکستان کو 28 ارب ڈالر تک کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ماہرین معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کے لیے ان قرضوں کی بروقت ادائیگی چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے ذمے بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ملک کے معاشی منتظمین کے لیے ہمیشہ ہی سے تشویش کا باعث رہا ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کو دو طرفہ اور کثیر جہتی ڈونرز کے ساتھ باہمی مشاورت کے ذریعے قرضوں کی تنظیم نو کی ضرورت ہے تاکہ انہیں پائیدار بنایا جا سکے۔ دوسری صورت میں حکومت کو اپنی آمدنی کے ذرائع کئی گنا بڑھانے ہوں گے۔
نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے اس حوالے سے پہلے بھی کئی بیانات سامنے آ چکے ہیں کہ پاکستان کی معاشی حالت کافی خراب ہے اور اس میں سب سے زیادہ تشویش کی بات ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا حجم ہے۔
اُن کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کی معیشت کا حجم اس قدر نہیں کہ وہ ان قرضوں کی ادائیگی برداشت کر سکے۔
کئی تجزیہ کاروں کے خیالات کے برعکس نگراں وفاقی وزیرِ خزانہ نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کو دہرایا کہ ملک کے آدھے سے زیادہ قرضوں کو فوری طور پر ری اسٹرکچر نہیں کیا جا سکتا۔
ملک پر واجب الادا بیرونی قرضوں کا بڑا حصہ یعنی 44 فی صد کثیر جہتی ایجنسیوں جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، اے ڈی بی اور اسلامی ترقیاتی بینک کا ہے اور اس قرض کی دوبارہ پروفائلنگ نہیں کی جا سکتی۔
اسی طرح پاکستان کے ذمے کمرشل قرضہ بیرونی قرضوں کا 14 فی صد ہے اور قرض کے اس حصے کی بھی دوبارہ پروفائلنگ کافی مشکل ہے کیوں کہ اس میں اسٹیک ہولڈرز کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔
سینئر ماہر اقتصادیات، ریاض رحمان کا کہنا کہ معاشی صورتِ حال قرض کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگانے میں ایک اہم عنصر سمجھی جاتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی کی نسبت قرضوں کا زیادہ تناسب ڈیفالٹ کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔ اس تناسب کے بڑھنے سے حکومت کو سالانہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ قرض کی ادائیگی کے لیے مختص کرنا پڑتا ہے، اس طرح پبلک سیکٹر کے ترقیاتی پروگراموں سمیت دیگر اخراجات کے لیے رقم کم رہ جاتی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضوں کا کل حجم رواں سال جون میں اس کے جی ڈی پی کے تناسب سے 68 فی صد سے زائد ہو چکا ہے۔ اس بارے میں خود حکومتی قوانین قرار دیتے ہیں کہ یہ حجم 60 فی صد کے تناسب سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور گزشتہ پانچ برسوں سے یہ قانون میں طے کی گئی حدود سے زیادہ رہا ہے۔
'قرضوں کے حجم کے بڑھنے کی وجہ مسلسل مالی خساروں والے بجٹ ہیں'
اسٹیٹ بینک کا تازہ ترین فسکل رسک اسٹیٹمنٹ اس کی بنیادی وجہ مسلسل مالی خسارے پر محیط بجٹس کو قرار دیتا ہے جو 2010 سے جی ڈی پی کا اوسطاً 6 فی صد رہا ہے۔
اس وجہ سے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ کل قرضہ نہ صرف خسارے پر محیط بجٹ کے باعث بلکہ دیگر وجوہات کی بنا پر بھی بڑھ سکتا ہے جس میں شرح سود میں اضافہ اور دیگر کرنسیوں سے روپے کی شرح مبادلہ میں اضافہ شامل ہو سکتی ہیں۔
رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ملک کا بیرونی قرضہ کل عوامی قرضوں کا 41 فی صد بنتا ہے اور جاری کھاتوں کا خسارہ زیادہ ہونے، زرِمبادلہ کے ذخائر کم ہونے اور شرح مبادلہ کمزور ہونے کی بنا پر حکومت کی مالی پوزیشن کمزورر ہوجاتی ہے۔ ایسے میں بڑی بیرونی ادائیگیوں کے نتیجے میں لیکویڈیٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور شرح مبادلہ مزید غیر مستحکم ہوجاتا ہے۔
اب کرنا کیا چاہیے؟
ماہرین کا خیال ہے کہ ان حالات میں دو طرفہ قرضوں کی ری شیڈولنگ سے پاکستان کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ رواں سال دو مواقع پر چین نے پاکستان پر واجب الادا قرض ری شیڈول کیا ہے۔
یہ رپورٹس بھی آرہی ہیں کہ چینی بینک سے حاصل کردہ 60 کروڑ ڈالر کا مزید قرضہ بھی ری شیڈول کرانے کے لیے بات چیت کا عمل جاری ہے جو پاکستان کو اس سال کے آخر میں ادا کرنا ہے۔
ماہر معاشیات عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا کے دوران بھی پاکستان ڈیبٹ سسپینشن انیشی ایٹو کے تحت 19 ممالک سے تقریباً 1.7 ارب ڈالر قرضہ ری شیڈول کروانے میں کامیاب ہوا تھا اور اب بھی اس کے سوا دوسرا راستہ نکالنا کافی مشکل ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے دوسرا راستہ موجود ضرور ہے جو کٹھن اور دشوار ہونے کے ساتھ طویل اور صبر آزما ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانا ہو گا اور اس کے لیے برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ترسیلاتِ زر کو بڑھانا ہو گا۔
اندرونی قرضہ جو کل قرضوں کے حجم کا کوئی 60 فی صد ہے۔ اس کو کم کرنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اپنی ٹیکس آمدنی بڑھانی ہو گی اور ٹیکس اصلاحات کیے بغیر اس میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق شہریوں کو ٹیکس دینے پر قائل کرنے کے لیے حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ہو گی اور اس کے لیے اپنے غیر ضروری اخراجات گھٹا کر عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے ہوں گے۔
دوسری اہم چیز حکومت کو شرح سود کم کرنا ہو گی۔ اس قدر شرح سود جہاں ملک میں کاروبار کرنے کو ناممکن بناتی ہے وہیں یہ خود حکومت کے لیے قرضوں کا بوجھ بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شرح سود کا انحصار اس بات پر ہے کہ ملک میں مہنگائی کی کیا صورتِ حال ہے اور مہنگائی بڑھنے کی صورت میں حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی دی گئی واضح ہدایات کے مطابق شرح سود بڑھانا ضروری ہے۔
اس کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کو قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجوہات جہاں غیر دستاویزی معیشت ہے وہیں یہ رسد میں کمی کے مسائل کی وجہ سے مہنگائی بڑھتی ہے جب کہ طلب میں اضافے سے منسلک وجوہات محدود ہیں۔
فورم