رسائی کے لنکس

امریکہ پر اسرائیل حماس معاہدے میں توسیع کا دباؤ، سربراہ سی آئی اے مشرقِ وسطیٰ میں موجود


امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک انتہائی قابلِ اعتماد اعلیٰ سرکاری عہدیدار کو مشرقِ وسطیٰ بھیجا ہے تاکہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے عارضی جنگ بندی معاہدے کا مستقل حل ممکن بنا سکیں۔

وی او اے کے نمائندے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق امریکی اعلیٰ حکام نے نام ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جینس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر ویلیم برنز منگل کو قطر پہنچے ہیں جہاں وہ اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں شامل ہوں گے۔ ان مذاکرات میں یرغمال افراد کا معاملہ بھی زیرِ بحث آئے گا۔

واضح رہے کہ سی آئی اے اپنے سربراہ کے بیرونِ ملک دوروں سے متعلق عمومی طور پر معلومات جاری نہیں کرتی۔ ویلیم برنز کے قطر جانے کے حوالے سے بھی سی آئی اے نے کوئی بیان نہیں دیا۔ البتہ اس حوالے سے ابتدائی طور پر رپورٹس امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہوئی تھیں۔

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے قطر میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ قطر اور مصر کے حکام سے بھی ملے ہیں۔

حماس اور اسرائیل میں چار دن کے عارضی جنگ بندی کے معاہدے میں مزید دو دن کی توسیع کے بعد امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس میں مزید بھی توسیع ہو سکتی ہے۔ اس دوران حماس مزید یرغمالوں کو رہا کر سکتی ہے جب کہ غزہ کی گنجان آباد ساحلی پٹی میں مزید امداد پہنچنے کا بھی امکان ہے۔

ایسے میں جب سی آئی اے کے ڈائریکٹر مشرقِ وسطیٰ میں موجود ہیں۔ رواں ہفتے ہی امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن بھی خطے کا ایک اور دورہ کریں گے جس میں وہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، مغربی کنارے اور اسرائیل میں رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔

امریکہ کے اعلیٰ حکام نے سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملوں کے بعد نہ صرف اسرائیل کی سفارتی سطح پر مدد کی ہے بلکہ اسے ہتھیار بھی فراہم کیے ہیں۔ حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں عام شہری بھی شامل تھے۔

حماس نے سات اکتوبر کو حملے کے دوران لگ بھگ 240 افراد کو یرغمال بھی بنایا تھا۔ پانچ دن قبل ہونے والے عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت حماس اب تک 70 سے زائد یرغمالوں کو رہا کر چکی ہے جب کہ اسی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید 150 فلسطینی خواتین اور بچے بھی رہا ہوئے ہیں۔

امریکہ کے درالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی سے وابستہ سی آئی اے کے سابق اعلیٰ عہدیدار پال پیلر کا کہنا ہے کہ امریکہ کی انتظامیہ کا اس وقت مقصد واضح ہے کہ جنگ بندی معاہدے میں زیادہ سے زیادہ عرصے تک توسیع کی کوشش کی جائے۔ اس دوران جس قدر ممکن ہو یرغمال افراد کی رہائی ممکن بنائی جائے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پال پیلر نے کہا کہ ویلیم برنز اس تمام صورتِ حال میں مدد کرنے کے قابل ہیں۔

واضح رہے کہ ویلم برنز 2021 میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر بننے سے قبل 2011 سے 2014 تک امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ رہے ہیں۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر گزشتہ ایک ماہ کے دوران دوسری بار مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر گئے ہیں۔ وہ پہلی بار رواں ماہ کے آغاز میں مشرقِ وسطیٰ پہنچے تھے۔ اس وقت امریکی حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر کئی ممالک گئے تھے اور انہوں نے ان ممالک کے رہنماؤں اور خفیہ اداروں کے حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔ اس دورے کا مقصد یرغمال افراد کی رہائی کے لیے بات چیت کا آغاز ممکن بنانا اور اسرائیل حماس جنگ کو خطے میں پھیلنے سے روکنا تھا۔

اب جب عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے اور کچھ یرغمالوں کی رہائی بھی ممکن ہو گئی ہے تو سی آئی اے کے سابق حکام کا خیال ہے کہ خفیہ ادارے کے سربراہ اب اس سے آگے کے معاملات کے حوالے سے اقدامات کو ممکن بنانا چاہتے ہیں۔

مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے سی آئی اے میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار ماک پولیمیروپولاس کہتے ہیں جب ہم ایک دن بعد کی بات کرتے ہیں جب یہ سب ختم ہو جائے گا تو اس وقت غزہ کی کیا صورتِ حال ہوگی؟ غزہ میں کس طرح کی بین الاقوامی قوت موجود ہو سکتی ہے؟ غزہ کی دوبارہ تعمیر کیسے ہوگی؟اس کے ساتھ ساتھ امریکہ، اسرائیل، مصر سمیت دیگر ممالک کے درمیان یہ گفتگو بھی ہو سکتی ہے کہ حماس کا مستقبل کیا ہوگا۔

واضح رہے کہ امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

ماک پولیمیروپولاس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ غزہ اور مغربی کنارے میں حماس کو فلسطینی عوام ایک غیر معمولی قانونی حیثیت حاصل ہوئی ہے۔ وہاں کے لوگوں اور قیدیوں کے خیال میں وہی انہیں اس صورتِ حال سے نکال سکتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس کو اب وہاں پر ایک ریاستی ستون سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ کے لیے بھی یہی سب سے بڑی خدشات کی وجہ ہے۔

دیرپا امن کے لیے غزہ کا انتظام کس کو ملناضروری ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:10 0:00

امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی کا منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ "ہم تمام یرغمال افراد کو واپس لائیں گے۔"

امریکہ کی انتظامیہ عارضی جنگ بندی کو ایک سفارتی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ البتہ اب امریکہ کے صدر جو بائیڈن پر یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ اسرائیل میں قائم وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کو قائل کریں کہ وہ غزہ میں مستقل بنیادوں پر لڑائی روک دیں۔

وائٹ ہاؤس اب تک امریکہ میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض حلقوں کی جانب سےاٹھائے جانے والی ان آوازوں کو نظر انداز کرتا رہا ہے جن میں امریکی انتظامیہ سے اسرائیل کے حملوں کی حمایت ترک کرنے اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

حکام مستقل یہ کہتے رہے ہیں کہ اس وقت غزہ میں امداد کی فراہمی یرغمال افراد کی رہائی کے حوالے سے معاہدے کے ذریعے ممکن ہے جس کے تحت عارضی جنگ بندی بھی ہوئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے امریکہ کے ڈائریکٹر پاؤل اوبرائن کا کہنا ہے کہ زمینی حالت سے نمٹنے اور وہاں موجود انسانی حقوق کی صورتِ حال کے لیے جنگ بندی کے چھوٹے چھوٹے وقفے ناکافی ہیں۔

پاؤل اوبرائن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ کے زیادہ سے زیادہ باشندے چاہتے ہیں کہ جنگ بندی برقرار رہے۔

امریکہ کے ادارے ’مارننگ کنسلٹ‘ کے ایک حالیہ سروے میں سامنے آیا تھا کہ امریکہ کے 53 فی صد شہری چاہتے ہیں کہ جنگ بندی کی جائے۔

اس خبر کا کچھ حصہ پیٹسی وڈاکوسوارا نے رپورٹ کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG