اقوام متحدہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ غربت زدہ افغانستان میں طالبان حکومت نے حال ہی میں سینکڑوں خواتین کو ان کی ملازمتوں سے مبینہ طور پراس لیے نکال دیا کہ انہوں نے خواتین پر نافذ شریعت کے تقاضوں کی تعمیل نہیں کی تھی۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن نے جو ’یوناما‘ کے نام سے جانا جاتا ہے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کے بارے میں 2023 کی آخر ی سہ ماہی پر محیط پیر کو جاری ہونے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ طالبان حکام خواتین کی ملازمت، تعلیم ، اور نقل و حرکت کی آزادی کے حقوق پر پابندیوں کا نفاذ اور اس کی تشہیر جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
یوناما نے ایک ایسے ملک میں جہاں لاکھوں لوگوں کو انسانی ہمدردی پر مبنی امداد کی ضرورت ہے اپنی رپورٹ میں خواتین کی بر طرفی کے شواہد پیش کیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق طالبان کی امر بالمعروف و نہی عن المنکر یا اخلاقیت کے نفاز سے متعلق وزارت نے خواتین کے لئے ملازمت یا سروسز تک رسائی میں اس لیے رکاوٹیں ڈالیں کہ وہ شادی شدہ نہیں تھیں یا ان کے ساتھ کوئی مرد سر پرست نہیں تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی مقامات،دفاتر اور تعلیمی ادارو ں میں حجاب یا لباس کے ضابطے کی تعمیل میں کمی،محرم یا مرد رشتے دار کی غیر موجودگی اورخواتین پرنافذ دوسری پابندیوں کی تعمیل میں کوتاہی پر رپورٹ کیے گئے عرصے کے دوران، افغانستان کے دو صوبوں میں کم ا زکم 600 خواتین کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑے ۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وزارت کے صوبائی چیپٹر نے اکتوبر میں مشرقی صوبےننگر ہار میں چلغوزے کےایک کارخانے میں کام کرنے والی 400 خواتین پر کوئی جواز فراہم کیے بغیر کام کرنےپر پابندی عائد کر دی جب کہ مردوں کو کام جاری رکھنے کی اجازت تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ شمالی صوبے بلخ میں نومبر کے مہینے میں طالبان کے زیر انتظام ایک پاور پلانٹ میں 200 خواتین کو مبینہ طور پر مالی وجوہات کی بنا پر برخواست کر دیا گیا جب کہ کسی مرد ملازم کو ایسی کسی کارروائی کا سامنا نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایک واقعے میں اخلاقیات کے نفاذ سے متعلق وزارت کے عہدے دارو ں نے ہیلتھ کئیر کے ایک مرکز کے عملے کی ایک غیر شادی شدہ خاتون اہل کار کو یاس ہدایت کے ساتھ کہکسی غیر شادی شدہ خاتون کے لیے ملازمت کرنا مناسب نہیں ہے، ہدایت کی کہ وہ یا تو شادی کر لے یا پھر اپنی ملازمت کو کھونے کا خطرہ مو ل لے ۔
یوناما کی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ماہ وزارت کے عہدے داروں نے جنوبی شہر قندھار میں ایک بس اڈے کا دورہ کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ خواتین کسی مرد رشتے دار کے بغیر لمبے فاصلے کے سفر نہ کریں اور ڈرائیورز کو ہدایت کی گئی کہ وہ خواتین مسافروں کو اس وقت تک بسوں میں سوار ہونے کی اجازت نہ دیںجب تک ان کے ہمراہ کوئی مرد رشتے دار نہ ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ مشرقی صوبے پکتیا میں دسمبر کے شروع میں ان خواتین کو صحت کے مراکز میں رسائی کی اجازت نہیں دی گئی جن کے ہمراہ کوئی مرد رشتے دار نہیں تھا جب کہ وزارت کے حکام نے اس حکم کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے صوبے کے صحت کے مراکز کا دورہ جاری رکھا۔
بین الاقوامی برادری نے طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انہیں فوری طور پر ختم کیا جائے۔ کسی ملک نے افغانستان کی فی الواقع حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے خاص طور پر انسانی حقوق کے خدشات اور خواتین کے ساتھ سلوک کی وجہ سے۔۔
طالبان کےترجمان اعلیٰ ذبیح اللہ مجاہد نے انگریزی زبان میں جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسلامی قوانین کی انسانی حقوق کے خلاف ایک اقدام کے طور پر مذمت واضح طور پر لوگوں کے عقائد کی توہین ہے ۔
ترجمان نے یوناما پر زور دیا کہ وہ افغان قوم کے مذہبی معاملات پر تنقید سے گریز کریں۔
ترجمان نے کہا،خواتین کاحجاب،خواتین کےساتھ ایک شرعی محرم کی ضرورت،خواتین کی ملازمت اور تعلیم کے لیےشرعی ماحول ۔۔۔یہ سب ایک زمہ دار اور اسلامی حکومت کی زمہ داریاں ہیں ۔
فورم